Maktaba Wahhabi

206 - 384
غلط ہے کہ ان اشغالِ مشائخ کے بغیر یہ نسبت حاصل نہیں ہوتی۔ نسبت ان میں منحصر نہیں بلکہ یہ اشغال تو اس کے حاصل کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہیں۔ ورنہ اکثر اکابر علماء اس نسبت سے محروم ٹھہریں گے، حالانکہ فضائلِ علم، فضیلتِ عبادت سے فائق تر ہیں۔ اور اگر علمائے آخرت اللہ کے اولیاء اور صاحبِ نسبت نہیں ہیں تو پھر کوئی بھی اللہ کا ولی نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کا سکینہ حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خشوع اور حضورِ دل کے ساتھ خلوت میں صلوات و تسبیحات پر اور طہارت پر بھی مواظبت رکھا کرتے تھے اور موت، اطاعت شعاروں کے ثواب اور نافرمانوں کے عقاب کو یاد رکھ کر لذاتِ حِسیہ سے الگ رہتے تھے۔ قرآن مجید ہمیشہ تدبر سے پڑھتے، ناصح و واعظ کے کلام کو سنتے اور احادیثِ رقاق پر عمل کرتے تھے۔ ان امور پر ایک مدت تک عمل پیرا رہنے کے باعث انہیں ملکہ راسخہ حاصل ہو جاتا تھا۔ پھر بقیہ عمر اس کی حفاظت فرماتے تھے۔ ’’قول جمیل‘‘ میں فرمایا ہے: ((وهذا المعنيٰ هو المُتوارث عن رسول الله صلي الله عليه واٰله وسلم من طريق مشائخنا لا شك في ذٰلك وان اختلف الالوان واختلفت طرق تحصيلها)) ’’ہمارے مشائخ کے طریق سے یہی معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، اگرچہ اس کے رنگ اور تحصیل کے طرق مختلف ہیں۔ لیکن اس کی حقیقت میں کوئی شک نہیں۔‘‘ پھر صاحبِ سکینہ کی کچھ علامات بھی ہیں۔ مثلاً 1۔ خدا کی اطاعت و عبادت کو اس کے ماسوا پر ترجیح دینا اور اس پر غیرت کرنا۔ 2۔ ظاہر جسم و جوارح پر غلبہ خوف کا ظہور۔
Flag Counter