ایک افتراء مجھ پر یہ بھی باندھا گیا کہ میں اپنے بعض بچوں کا رئیسہ عالیہ کی اولاد سے رشتہ کرنا چاہتا ہوں حالانکہ میری اولاد فارغ نہیں، بلکہ شاغل ہے اور پھر میں نسبِ سیادت کی حفاظت کو سب امور پر مقدم رکھتا ہوں، دولت کے لیے قرابت کرنے سے مجھے سخت عار ہے۔ اس حیلہ سے اکتسابِ دولت و حکومت کا اندیشہ وہ کرے جو دنیا کو اپنی سعادت سمجھے ؎
آنچہ فخر تست آن ننگِ من ست
ماہِ شعبان 1303ھ میں پریشانی و حیرانی کا سخت غلبہ تھا، اور بظاہر نجات و امن کی کوئی شکل دیکھنے سننے میں نہ آتی تھی۔ اسی اثناء میں ایک رات صبح جو نماز کے لیے بیدار ہوا تو میری زبان پر خود بخود یہ کلمہ جاری تھا۔
﴿ لَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ﴾ [1]
’’نہ ڈر یقیناً تو امن والوں سے ہے۔‘‘
پھر دوسری رات بھی ایسے ہی ہوا، صبح دم بیدار ہوتے وقت یہ آیت میری زبان پر جاری تھی۔
﴿ وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ﴾ [2]
’’اور انہوں نے اس کے ساتھ مکر کا ارادہ کیا پس ہم نے ان کو خسارہ اٹھانے والے کر دیا۔‘‘
میں نے یقین کر لیا کہ میرے خیال و گمان کے بغیر اس قراءت و تلاوت کا دل و زبان پر جاری ہونا۔ رحمان و رحیم کی طرف سے امن و امان کی بشارت ہے۔ اس دن سے میرے دل میں استقلال اور طمانیت ہے۔ ہر چند کہ اس دوران میں لوگوں نے خوفناک خبریں سنا کر مجھے متزلزل کرنا چاہا۔ لیکن میں یقینِ غیبی پر مستقیم رہا اور ہجومِ افکار سے پریشاں خاطر نہ ہوا
|