Maktaba Wahhabi

246 - 384
ہو کہ وہ جہنم کے کوئلوں میں سے ایک کوئلہ ہو گا۔ ہم القاب کی حرمت کا فتویٰ نہیں دیتے کیونکہ ان میں کذب غیر محقق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ شمس الدین، نور الدین وغیرہ کہنے سے کہنے والے کی مراد یہ ہو کہ وہ اپنی ذات کی حد تک دین کا آفتاب، نور یا قطب ہے۔ اسی طرح دیگر القاب کا معاملہ ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ بات دوست و احباب اور ہم عمر لوگوں کے متعلق ہے ورنہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے اساتذہ اور شیوخ کو سیادت، تفخیم اور تعظیم پر مشتمل القاب سے پکارے جیسا کہ سلف صالح کا معمول تھا۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ’’عتیق‘‘ کے لقب سے نوازا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ذکر فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’صدیق‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ’’فاروق‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ’’ذو النورین‘‘ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ’’سیف اللہ‘‘ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ’’اسد اللہ‘‘ اور جعفر رضی اللہ عنہ کو ’’ذو الجناحین‘‘ کے القاب سے سرفراز فرمایا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین! میرے لیے تو اب صرف اتنی کسر باقی رہ گئی ہے کہ میرا رب مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لے لقب کی برکت سے صدیقیت کا مصداق بنا کر نارِ جہنم سے آزاد کر دے تاکہ اس مناسبت سے صدیق کے بعد عتیق بھی ہو جاؤں اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت ایمان کی حالت میں جاؤں۔ وما ذٰلك علي الله بعزيز
Flag Counter