Maktaba Wahhabi

245 - 384
رہتے تھے۔ اور ان کاموں میں دین کا نقصان سمجھتے تھے بلکہ وہ تو قید کئے گئے، ملک سے نکالے گئے، مارے پیٹے گئے اور بعض کو قتل بھی کیا گیا۔لیکن انہوں نے ان مناصب کے قبول کرنے سے انکار ہی کیا۔ یہ کام انہی لوگوں سے بنتا ہے جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ یہ خطاب و القاب نہ مجھے طلب و تدبیر سے حاصل ہوئے تھے اور نہ ہی سوءِ تدبیر سے گئے بلکہ جس کے سبب سے ملے تھے اسی کی وفاداری میں گئے، وللہ الحمد! علاوہ ازیں اس زمانہ میں خطاب کی وقعت ہی یہ رہ گئی ہے کہ اکثر نا اہلوں کو بصرفِ زر، آشمالی، شرکتِ محفلِ فجور، آلات و اسبابِ فسوق کے استعمال کور نمکی آقا یا چالاکی اور فریب و دغا بازی سے مل جاتے ہیں۔ یہ باتیں کسی مسلمان سے بھلا کب ہو سکتی ہیں کہ اسے خطاب ملے یا مل کر باقی رہے۔ شعرانی رحمہ اللہ نے ’’منن کبریٰ‘‘ میں لکھا ہے کہ: مجھے اگر کوئی کیفیت، شیاخت یا سیادت کے بغیر محض میرے نام سے پکارتا ہے تو مجھے تکدر نہیں ہوتا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ انسان کو اس کے نام سے پکارنا صدقِ محض ہے اور القاب یا کنیتوں وغیرہ میں اکثر کذب داخل ہو جاتا ہے، خواہ تاویل بعید سے ہو۔ اور کمتر لوگ اسے قبول کرتے ہیں۔ سلف صالح، صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ بھی اسی طریق پر کاربند تھے کہ صرف نام لے کر ہی ایک دوسرے کو بلاتے اور جب کسی کو نام لے کر بلایا جاتا تو وہ لبیک کہتا۔ اور جو شخص ’’شمس الدین، نور الدین اور سراج الدین‘‘ وغیرہ القاب پر خوش ہوتا ہے۔ اسے اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا، اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات ثابت ہو چکی
Flag Counter