بہت اچھا ثابت ہوا۔ میں ایک مدت سے اسی خلوت و عزلت اور اسی وحدت و تنہائی کا طالب تھا ؎
للہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر مے خواست
آخر آمدز پسِ پردہِ تقدیر پدید
میں خطابِ نوابی کو رب الارباب کا ایک عتاب سمجھتا ہوں اور امیر الملکی و والا جاہی کو سببِ ہلاک یوم الحساب۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مجھے یہاں تین خطاب ملے، ایک امیر الانشائی، دوسرا معتمد المہامی اور تیسرا یہ خطاب۔ میں ان خطابات میں سے کسی پر کبھی خوش نہیں ہوا، اور نہ ہی کبھی اظہارِ تفاخر کیا بلکہ ہمیشہ ان تحریکات اور ترقیات سے نہایت مدوشد کے ساتھ رئیسہ عالیہ سے معذرت چاہتا رہا لیکن میری عرض قبول نہ ہوئی ؎
آنچہ نصیب ست بہم میرسد
گرنہ ستانی بستم میرسد
اور اس امر کی شاہد خود رئیسہ عالیہ ہیں کہ ایک بار خود انہوں نے یہ چاہا تھا کہ مجھے صدر کی منظوری سے تاحیات ریاست کا کود مختارِ کار بنا دیں، چنانچہ اس تحریک کی مثل دفترِ ریاست میں موجود ہے۔ میں نے بڑی جدوجہد سے انہیں اس خیال سے باز رکھا ورنہ دنیا کا جادو تو ہاروت و ماروت کے سحر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میرے سوا کوئی دوسرا شخص اس زمانہ میں اس امر میں پیچھے رہتا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ حَمْدًا کَثِیْرًا
اب جو اس خطاب و القاب کا ازالہ ہو گیا ہے، اور جو نام میرے باپ نے رکھا تھا یعنی صدیق بن حسن وہ باقی رہ گیا تو یہ بات میرے لیے دنیا و آخرت کے اعتبار سے بڑی مسرت کی ہے۔ سلفِ اسلام ہمیشہ ایسے امور سے متنفر
|