﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٥﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٦﴾﴾[1]
اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے وہ کام لیے ہیں کہ کسی اور سے کم لیے ہوں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کے حصول کی تدبیر نہ کیجئے بلکہ اس تدبیر میں تو ہم سب تمہارے خیرخواہ لگ رہے ہیں۔ اس واسطے کہ آپ کی عزت و جاہ تمام اہل سنت بلکہ تمام اہلِ اسلام کی عزت و جاہ ہے اور ہم کو یہ تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اعداء و حساد کو ہدایت کرے یا خوار و ذلیل فرمائے۔ غرض اس عرض سے یہ ہے کہ خاطر مبارک کو مطمئن و فارغ رکھ کر بدستور خدمت مفوضہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مشغول رہو، اور اگر کبھی کچھ خیال نفس کا متغیر پاؤ تو یہ کہو ؎
غلامِ ہمت آنم کہ زیرِ چرخ کبود
زہرچہ رنگِ تعلق پذیر د آزاد ست
نصیحتے کنمت یادگیر و در عمل آر
کہ این حدیث زپیرِ طریقتم یاد ست
کہ اے بلند نظر شاہبازِ سدرہ نشیں
نشیمن تو نہ ایں کنجِ محنت آباد ست
تراز کنگرہِ عرش میز نند صفیر
ندانمت کہ دریں دا مگہ چہ افتاد ست
غمِ جہاں مخور و پندِ من مبرا زیاد
کہ ایں لطیفہِ نفزم زرہرے و یاد ست
والسلام۔‘‘ انتہیٰ
میں اس خط کو اس جگہ نقل نہیں کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہ ان اوصاف پر مشتمل ہے، جن کے ساتھ میں اپنا اتصاف نہیں پاتا۔ صاحبِ خط نے حسنِ ظن سے جو چاہا لکھ دیا۔ میں تو اس خط کو صرف اس لیے یہاں نقل کر رہا ہوں کہ اس میں مجھے نصیحت و تسلی لکھی ہے۔
میں اللہ سے یہی چاہتا ہوں کہ مجھے خطِ مذکور کے مضامین کا مصداق بنا دے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس تہلکہ میں ثابت قدم رکھا، صبر عطا کیا، انقلاب سے رنجیدہ خاطر نہ کیا، بلکہ اس شغل سے جدا ہو جانا
|