Maktaba Wahhabi

224 - 384
عقد سید عزیز حسین بن سید شریف حسن مفتی فرخ آباد سے کر دیا۔ دوسری بہن کی شادی بلگرام میں سید عبدالعزیز واسطی سے کر دی، تیسری بہن کا عقد شیخ حامد حسین بن مفتی محمد حسن مرحوم بریلوی سے کیا۔ یہ میرے حقیقی ماموں کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ پھر یہی دقت اپنے لڑکوں کی شادی کے وقت پیش آئی۔ چنانچہ فرزندان کے لیے دختران میر حیدر علی ساکن موضع بیتی ضلع فتح پور علاقہ کانپور کو کمالِ صحتِ نسب کی وجہ سے اختیار کیا گیا۔ دختر کی شادی رئیسہ عالیہ کی عنایت سے ایک لاکھ روپیہ صرف کر کے میر عبدالحی خان بن مولوی سید عبدالرزاق کے ساتھ ہوئی۔ رئیسہ کی طرف سے ان سب بچوں کو خطاب، القاب مع اقطاع حاصل ہیں۔ اس زمانہ میں اہل شرف کے لیے قرابتِ صالحہ کا بہم پہنچانا بھی ایک مصیبت سے کم نہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ آج کل شوہر نہایت دِقاحت سے بیویوں کے مال کو حلال اور طیب سمجھ کر غارت کرتے ہیں۔ اور اپنے آپ پر بیوی کے نان و نفقہ، مسکن اور دیگر ضروریات کے حقوق واجب نہیں سمجھتے حالانکہ اس کی فرضیت میں کسی فقیہ حنفی کا بھی اختلاف نہیں۔ پھر خود کما کر اپنے اہل و عیال کی پرورش کرنے کا کیا ذکر ہے؟ اہل اسلام کی خانہ ویرانی اور ادبار کے بڑے اسباب یہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب تک میں نے اپنے دست و بازو سے ملازمت کر کے اپنی گزر بسر کا سامان نہ پیدا کر لیا، تب تک نکاح نہ کیا، پھر نکاح کے بعد اہل و عیال کے سارے مصارف اپنی معاش سے پورے کرتا رہا۔ بیوی اگرچہ آسودہ حال تھیں۔ لیکن میں نے ان کے مال سے کبھی ایک پیسہ بھی نہ لیا، نہ کبھی خُسر سے لیا، بلکہ خُسر کی ہر چیز لینے میں عار محسوس کی، اور بارہ سال تک ان کے باغ میں قدم نہ رکھا بلکہ اگر اُنہوں نے کبھی کچھ دینا چاہا یا دیا تو اسے واپس کر دیا اور نہ لیا۔ وجہ یہی تھی کہ نفس اس بات سے
Flag Counter