[1]اور دین کے اماموں کے حالات سے بحثیں کی ہیں۔ اور فن اسماء الرجال میں کتابیں لکھی ہیں۔ اور مؤرخین نے سلاطینِ زمان وغیرہ اعیان کے حالات میں تاریخیں تالیف کیں۔
اِسی اصول پر ہم بھی بعض اوقات بعض اعیان اسلام کے حالات سے بحث کرتے ہیں۔ ان کے نشر مناقب و محامد کو موجب ہدایت ہزاروں اشخاص کا جو اُن کی طرف رجوع کریں، اُن کی تالیف سے ہدایت پاویں، خیال کر کے اشاعۃ السنہ میں ان کے فضائل و کمالات کو بیان کرتے ہیں، اِس امر کو اگر کوئی ذاتی و شخصی بحث سمجھے تو یہ اس کی نا فہمی ہے اور جو اس کو اخبار نویسوں کی سی خوشامد تصور کرے یہ اس کی سوء ظنی و بدگمانی ہے۔ یہ بدگمانی ہر ایک کام میں (اچھے سے اچھا کیوں نہ ہو) ہو سکتی ہے۔ (مثلاً ایک شخص دوپہر کی دھوپ میں نماز کے لیے کسی مسجد میں آتا ہے۔ اس کے اس فعل میں یہ بدگمانی ہو سکتی ہے کہ یہ ریا کار ہے۔ اس فعل سے یہ تسخیر خلائق مدنظر رکھتا ہے) مگر خدا و رسول قرآن و اسلام ہم کو اس بدگمانی سے مانع ہیں۔ اور ہر ایک مسلمان کے فعل میں (گو وہ بدنیتی سے کیا گیا ہو) حسن ظنی و نیک نیتی کے گمان کرنے کو واجب کرتے ہیں۔ چنانچہ اشاعۃ السنہ نمبر 1 جلد 6 میں بصفحہ 9 کتاب و سنت سے اس کا ثبوت دیا گیا ہے۔ لہٰذا کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا کہ ہمارے یا کسی مسلمان کے فعل میں (جب تک کہ اس کے پاس ایسی قطعی دلیل بدگمانی کی جو خدائے تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن چل سکے) موجود نہ ہو بدگمانی کرے۔ آئندہ اختیار ہے قیامت قریب
|