Maktaba Wahhabi

132 - 384
کی طرف سے تصریح نہیں پاتا تو اس پر عمل کرنے سے توقف کرتا ہوں، اور کوئی اقدام نہیں کرتا: ((اِلَّا اَنْ رَأَيْتُ فِيْهَا نَصًّا اَوْ اِجْمَاعًا اَوْ قِيَاسًا جَلِيًّا)) ’’جب تک اس میں کوئی نص یا اجماع یا قیاسِ جلی نہ دیکھ لوں۔‘‘ یہ اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ: ((اَلرَّاْيُ فِي الدِّيْنِ تَحْرِيْفٌ وَفِي الْقَضَآءِ مَكْرَمَةٌ)) ’’دین میں رائے کو دخل انداز کرنا تحریف کے مترادف اور (مقدمات کے) فیصلہ میں رائے سے کام لینا عزت کا باعث ہے۔‘‘ بلکہ کتاب و سنت کا ماہر عالم قیاسِ جلی و اجماع کا بھی محتاج نہیں ہوتا۔ وہ دلائل کے کلیات و عمومات سے خود مسئلہ کا حکم استنباط کر سکتا ہے، کسی غیر کا اجتہاد اس پر لازم نہیں ہوتا۔ یہ بات آیت کریمہ ﴿ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ سے بخوبی ثابت ہے اور حدیثِ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ: ((ألا وإنِّي واللَّهِ قد وعظتُ وأمرتُ ونَهيتُ عن أشياءَ إنَّها لَمِثلُ القرآنِ أو أَكثرُ)) (رواہ ابو داؤد) ’’بخدا میں نے تمہیں حکم بھی دیا ہے وعظ و نصیحت بھی کی ہے اور بہت سی باتوں سے منع بھی کیا ہے جو قرآن جتنی یا اس سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی رائے شریف کا اتباع قائم نہیں رکھا تو دوسرا کون ہے جس کی رائے پر چلنا واجب یا مستحب ہو؟ چنانچہ حدیث رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ میں فرمایا: ((إنَّما أَنَا بَشَرٌ، إذَا أَمَرْتُكُمْ بشيءٍ
Flag Counter