میں طبعی طور پر نہ کسی کو دوست رکھتا ہوں اور نہ کسی سے مجھے بغض ہے۔ میں جس شخص کے اعمال و عقائد کتاب و سنت کے موافق پاتا ہوں، اور وہ خوش معاملہ بھی ہو تو میرا دل اس سے خوش ہوتا ہے۔ اور میں اسے شرعاً اللہ کے لیے دوست رکھتا ہوں۔ اگرچہ وہ ریاکار ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے ظاہر و باطن کی مخالفت اور ریا کے ظہور کے بعد اس کی محبت میرے دل میں نہیں رہتی۔ اور جس کے اعمال، معاملات اور اقوال کو قرآن و حدیث کے مخالف دیکھتا ہوں تو اس سے کچھ واسطہ نہیں رکھتا۔ ہاں امورِ دنیا میں جس طرح غیر مسلموں سے معاملہ پڑتا ہے، اِسی طرح مجبوراً اس سے بھی معاملہ کرتا ہوں اور وہ بھی صرف ضرورت کے تحت بغیر ضرورت کے اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ کیونکہ حدیثِ ابوذر رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے:
((أفضلُ الأعمالِ ، الحُبُّ في اللهِ ، والبُغضُ في اللهِ)) (رواہ ابو داؤد)
’’سب سے بہتر عمل اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر بغض ہے۔‘‘
اور ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت یوں ہے:
((مَنْ أَحَبَّ لِلّٰهِ وَأَبْغَضَ لِلّٰهِ وَأَعْطٰى لِلّٰهِ وَمَنَعَ لِلّٰهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيْمَانَ)) (رواہ ابو داؤد)
’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ کے لیے بغض رکھا، اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک لیا، اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔‘‘
قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے:
((أَمْ حَسِبَ ٱلَّذِينَ ٱجْتَرَحُوا۟ ٱلسَّيِّـَٔاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟
|