وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ سَوَآءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ)) [1](القرآن)
’’کیا برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم ان کو ایماندار اور نیک اعمال لوگوں کی طرح کر دیں گے؟ کہ ان کی زندگی اور موت دونوں ایک جیسی (خوشحال) ہوں، یہ فیصلہ ان کا بہت برا ہے۔‘‘
میں یہ نیت رکھتا ہوں کہ اگر میرا بس چلے تو روئے زمین پر کسی ایسی کتاب کو باقی نہ رہنے دوں جو کتاب اللہ کے مخالف نہ ہو۔ نہ کسی بدعت کو چھوڑوں جو سنت سے متصادم ہو، نہ دن یا رات میں کسی قسم کا فسق علی الاعلان ہونے دوں، اور اگر کسی قسم کا فسق وقوع پذیر ہو جائے تو شریعت کے مطابق حدود و تعزیرات نافذ کر کے اس کی روک تھام کر دوں۔ اگرچہ مجھے اپنا فسق و عصیان بھی بخوبی معلوم ہے۔ لیکن میرے اِس خیال کی بنیاد نیت پر ہے۔ اور عمل کی نیت پر اجر ملتا ہے خواہ وہ کسی مانع کی وجہ سے وقوع پذیر نہ ہو سکے۔
میں یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ اگر مجھے صلحاء یا اہل اللہ کی صحبت نصیب ہوتی تو یہ اعمالِ بد جو کہ اہل دنیا کی صحبت کی وجہ سے صادر ہوئے ہیں، ان کا عشرِ عشیر بھی وقوع پذیر نہ ہوتا، کیونکہ غربتِ اسلام بھی ان گناہوں کے صادر ہونے کا ایک سببِ عظیم ہے۔ اس کے باوجود اپنی بد اعمالیوں کا اعتراف ہے۔ میں اپنے کسی فعل بد کی تاویل نہیں کرتا اور نہ کسی نیک عمل پر اعتماد رکھتا ہوں۔ اگر رحمتِ الٰہی سے نااُمیدی کفر نہ ہوتی تو میرے اتنے گناہ ہیں کہ نااُمیدی میں کچھ شک نہیں
تو مگر از جہتِ رحمت خود نزدیکی
ورنہ من از طرف خویش بغایت دورم
اَللّٰهُمَّ غَفَرًا وَّحِفْظًا فِي الْحَالِ وَالْاِسْتِقْبَالِ وَمَوْتًا عَلَي الْاِسْلَامِ وَالْاِيْمَانِ۔ اَللّٰهُمَّ آمِيْن
|