چرخ کوکب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی محبوب ہے اس پردہِ زنگاری میں
اور میں اس شعر کا مصداق ہو گیا ؎
کارِ زلفِ تست مشک افشانی اتا عاشقاں
مصلحت را تہمتے بر آ ہوئے چیں بستہ اند
میرے خیال میں آقا نے بھی کسی گروہ پرستم گری نہیں کی۔ بلکہ جس قدر غیظ و غضب ان کے دل میں ہو گا یا اب ہے یا جتنا قصور خطاواروں کا تھا یا فی الحال ہے، ان کو حداً، تعزیراً، سیاسۃً یا ریاستہً ان کے قصور، اور گناہوں کی مقدار کے مطابق کیفرِ کردار تک نہ پہنچایا۔ یہ بات آقا کی خوشامد کے لیے نہیں ہے۔ کیونکہ میں طبعی طور پر آشمالی سے خالی ہوں اور حق گوئی سے مالی، مجھے اظہار حق میں کسی کی خوشی و نا خوشی سے غرض نہیں ہوتی۔ اگر میں دیگر دنیا دار لوگوں کی طرح ہوتا تو اس کتاب میں آقا کے شکوہ و شکایت کے متعلق کوئی حرف و حکایت نہ لکھتا۔ لیکن میں نے جو کلام جس جگہ مناسب سمجھا بلا تکلف خامہِ صدق نگار کے حوالہ کر دیا۔ الغرض جس جاں نشانی و جان کاہی اور بے آرامی سے آقا کی نیک نامی اور اپنے حُسنِ خاتمہ کی اُمید سے پندرہ برس بسر کئے تھے۔ وہ ساری محنت یاران زمانہ کی در اندازی اور واقعہ طلبی کی بنا پر دست بردِ فنا ہو گئی۔ یکایک جہاں کے حالات دگرگوں نظر آئے، دین پرستی و دنیا داری کا سارا کارخانہ تہ و بالا ہو گیا، ناتواں بینوں کی نظر لگ گئی، بہت زیادہ لوگ بگڑ گئے اور بہت تھوڑے بن گئے۔ یا اس کے برعکس ؎
دل بسے خوں بکف آورد ولی دیدہ بریخت
اللہ اللہ کہ تلف کرد کہ اندوختہ بود
|