Maktaba Wahhabi

100 - 384
((مَنِ القْتَدٰي بِكِتَابِ اللّٰهِ لَا يَضِلُّ فِي الدُّنْيَا وَلَا يَشْقٰي فِي الْاٰخِرَةِ)) ’’جس نے کتاب اللہ کی اقتداء کی وہ دنیا میں ضلالت اور آخرت میں شقاوت کا شکار نہیں ہو گا۔‘‘ پھر یہ آیت پڑھی: ﴿ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ[1] (رواہ رزین) ’’پس جس نے میری ہدایت کا اتباع کیا وہ نہ تو گمراہی کا شکار ہو گا اور نہ شقاوت سے دوچار۔‘‘ اِس سے ثابت ہوا کہ بیعت واجب نہیں ہے اور عمل کے لیے کتاب و سنت ہی کافی ہے۔ یاد رہے عصرِ نبوت میں جو بیعت ماثور تھی، وہ کبھی ہجرت پر، کبھی جہاد پر، کبھی ادائے واجبات پر اور کبھی ترکِ کبائر پر ہوتی تھی۔ مقاماتِ عرفان کے حصول اور منازلِ احسان کے وصول کے لیے نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ جب انسان شرعاً متقی بن جائے تو اسے یہ سب مقامات اپنے مقدر کے مطابق خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ سب اعمالِ صالحہ کے نتائج و ثمرات ہیں۔ نفسِ اعمال و عین افعال نہیں اور نہ مطلوبِ شارع ہی ہیں۔ مومن آدمی کے لیے سب سے بڑی کامیابی و کامرانی یہ ہے کہ وہ نار سے بچ کر گلزار میں جا پہنچے۔ ﴿ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ[2] ’’پس جو شخص (جہنم کی) آگ سے دور رکھا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا، پس وہ کامران ہوا، اور دنیوی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘ اور یہ مقصد شیخ کے بغیر بھی اکلِ حلال، صدقِ مقال اور اتباعِ سنت سے حاصل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے: ((مَنْ أَكَلَ طَيِّبًا، وَعَمِلَ فِي سُنَّةٍ،
Flag Counter