امانت و دیانت سلف اہل علم میں تھی خلف میں نہیں ہے۔ سلف کا اختلاف مکابرہ، مجادلہ، عصبیت یا خواہشِ نفسانی پر نہیں بلکہ مبنی بر تحقیق تھا۔ وہ لوگ دین کے معاملہ میں بڑے متقی، متدین اور محقق تھے۔ ہر علم، مسئلہ اور حکم میں وہ ہمیشہ اتباعِ حق کو ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے خلف کی بکواسات سے انہیں محفوظ رکھا تھا۔ اس لیے ان کے طریقہ کی پیروی موجبِ نجات ہے۔ اس کے برعکس خلف کا اختلاف سب و شتم اور عصبیت و خواہشاتِ نفس پر مشتمل ہے۔ جس کی بنیاد محض جہالت پر ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ:
’’ان من العلم جهلاً‘‘
میری مستقل تصانیف کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے، پھر بعض کتابیں کئی کئی مجلدات پر مشتمل ہیں، مثلاً تفسیر ’’فتح البیان‘‘ متوسط درجہ کی دس جلدوں میں ہے، ’’عون الباری شرح تجرید صحیح بخاری‘‘ متوسط درجہ کی چار جلدوں میں ہے ۔۔۔ ’’سراج وہاج شرح تجرید صحیح مسلم بن الحجاج‘‘ دو ضخیم جلدوں میں ہے۔ ’’مسک الختام شرح فارسی بلوغ المرام‘‘ دو ضخیم جلدوں میں ہے۔ اگر چھوٹے بڑے تمام مسائل کا شمار کیا جائے تو پھر میری تالیفات تین سو سے بھی زیادہ ہیں۔
وذٰلك فضل الله يؤتيه من يشآء
میرے خیال میں ہر تالیف عربی، فارسی یا اُردو کسی زبان میں ہو، اپنے باب میں ’’اجمع ما فی الباب‘‘ اور ’’خطیب فی المحراب‘‘ ہے۔ اور تحقیقی و مدلل ہونے کے اعتبار سے دیگر لوگوں کی تصنیفات کی نسبت فائق ہے۔ بلکہ اس فن کی دیگر کتب سے مستغنی کر دینے والی ہے۔
وَٱللَّـهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ [1]
ہر چند میں نے یہ کتابیں اپنے استفادہ کے لیے لکھی ہیں۔ کسی کے افادہ
|