Maktaba Wahhabi

61 - 384
یعنی دنیا دار صاحبِ مال ہوتا ہے اور عالم صاحبِ کمال علم سے اللہ تعالیٰ کی رضا ملتی ہے۔ جبکہ دنیا سے سرکشی حاصل ہوتی ہے۔ غرضیکہ طلبِ دنیا اور طالبِ علم کے فضائل بکثرت ہیں، جو شخص طلبِ علم میں مشغول ہے اور اسے خاص اللہ کی رضا مندی اور دین کی سر بلندی کے لیے طلب کرتا ہے۔ وہ بڑا خوش بخت ہے۔ یہ فضائل تو طلبہ علم کے ہیں۔ علماء کے فضائل تو اس سے بھی زیادہ ہیں۔ ان کا یہاں ذکر کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم جیسے لوگوں کو طالبِ علم ہونا ہی کفایت کرتا ہے۔ مرتبہ علم تک رسائی ہمارے سلف صلحاء کا کام تھا۔ خلف میں نہ وہ ہمت ہے اور نہ اشتیاق۔ سلف و خلف کے علوم میں بہت زیادہ تفاوت ہے۔ اس بارہ میں علامہ ابن رجب [1] رحمہ اللہ نے ایک نہایت مفید اور نفیس تقریر تحریر فرمائی ہے۔ جزاہ اللہ عنا خیراً علاوہ ازیں ہم لوگ علماء نہیں ہیں۔ بلکہ محض حمّال (علم اُٹھانے والے) نقّال (نقل کرنے والے) اور قوّال (زبان سے بیان کرنے والے) ہیں۔ پھر یہ حملِ علم بھی عدمِ عمل کی وجہ سے بے اثر ہے۔ آہ طاعتِ ناقص ما موجب غفران نشود راضیم گر مدد حلتِ عصیاں نشود میں نے علومِ دین کے تمام ابواب کی خوب چھان پھٹک کر کے عربی، فارسی اور اُردو میں بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں۔ میں نے ائمہ سلف اور علماء سابقین کی کتب سے استفادہ کیا ہے۔ کتبِ خلف سے بہت کم اخذ کیا ہے۔ اور بالخصوص معاصرین کی کتب کے مطالعہ کا تو بہت ہی کم اتفاق ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو
Flag Counter