الحنفي والمرتضيٰ اخو الرضا الامامي و علي راٰس الخامس المستظهر باللّٰه والغزالي والقاضي فخر الدّين الحنفي وغيرهم۔ ش)) (مجمع البحار ص 177 جلد 1)
’’اِس مجدد کی تعیینِ مصداق میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ ہر ایک فرقہ اس کو اپنے ہی امام پر لگاتا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اس کو عام سمجھا جاوے، اور فقہاء مذاہب سے مخصوص نہ کیا جاوے۔ کیونکہ لوگوں کا دین میں نفع اُٹھانا سلاطین اور محدثین اور قاریوں اور واعظوں اور زاہدوں سے بھی بہت ہوا ہے۔ اور اس سے مراد وہ شخص ہے جو صدی گزرنے کے وقت زندہ ہو اور شرح شفاء سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث میں اس جماعت اکابر کی طرف اشارہ ہے جو ہر صدی میں ہوئے۔ سو پہلی صدی میں (خلفاء سے) عمر بن عبدالعزیز تھے۔ اور فقہاء و محدثین وغیرہ سے بے شمار تھے۔ دوسری صدی میں (خلفاء سے) مامون اور (فقہاء سے) امام شافعی و حسن بن زیاد و اشہب مالکی اور (محدثین میں سے) علی بن موسیٰ و یحییٰ بن معین اور (زاہدوں میں سے) معروف کرخی، تیسری صدی پر (خلفاء سے) مقتدر باللہ اور (فقہاء سے) ابو جعفر طحاوی اور ابو جعفر امامی اور ابو الحسن الاشعری اور (محدثین میں سے) نسائی چوتھی صدی پر (خلفاء سے) القادر باللہ اور (فقہاء سے) ابو حامد اسفرائنی اور ابوبکر خوارزمی حنفی اور مرتضیٰ امامی رضا کا بھائی۔ پانچویں صدی پر خلفاء سے مستنصر باللہ (اور فقہاء و زاہدوں سے) امام غزالی و قاضی خاں حنفی وغیرہم۔‘‘
اِن عبارات اجلہ علماء (حنفیہ و شافعیہ) میں ہمارے معترضین
|