Maktaba Wahhabi

359 - 384
اُنہوں نے رکھا تھا۔ مگر اس وقت نواب صاحب کو یہ کمال علمی و حکمت عملی حاصل نہ تھا۔ اس وقت اِن کا خیال و حال و قال اس طرز مخاصمانہ سے ایسا مخالف ہو گیا ہے کہ ایسے مخاصمانہ رسائل کو اُنہوں نے اپنی تصنیفات کے عداد سے نکال دیا اور اپنی مصنفات کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ اس سے زیادہ واضح و روشن دلیل باہمی مناظرات سے نفرت و کراہت پر کوئی کیا دکھا سکتا ہے جو نواب صاحب بہادر نے قائم کر دکھائی ہے۔ اس حالت میں نواب صاحب یا اُن کی تصنیفات کو مذہبی مباحثات حنفیہ و اہل حدیث کی طرف منسوب کرنا خلاف واقع نہیں تو کیا ہے۔ اور اُن تصانیف کی نسبت یہ کہنا کہ وہ انبار بے سود ہے یعنی اس کو مسلمانوں کی قومی ترقی میں کچھ دخل نہیں ہے، سراسر ناواقفی اور کم فہمی پر مبنی ہے۔ یہ بات بجز اس شخص کے جو مذہب کو قومیت کا جز نہ سمجھتا ہو کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اور ایسا سمجھنے والا نہ صرف اپنی ناواقفی و لا علمی معنی قومیت سے ظاہر کرتا ہے، بلکہ وہ اس بات کا بھی اظہار کرتا ہے کہ اس کو قومیت سے تعلق نہیں ہے گو وہ قومی ترقی کا زبان سے خواہاں ہے۔ راقم ریویو نے ان کا کلام نقل کیا ہے جس کا ٹھیک ٹھیک مطلب یہ ہے کہ مذہب میں پیروی اقوام یورپ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے مذہب کو نقصان پہنچتا ہے جو ترقی قومی کے منافی ہے معلوم نہیں موہانی صاحب نے یہ بات کہہ کر وہ بات کیونکر کہی، یہ بات بھول گئے یا وہ بے سوچے قلم سے نکل گئی۔ اور جب کہ بشہادت اس بیان با برہان اور باعتراف قومی ترقی خواہاں بلکہ باقرار نکتہ چینیاں تصانیف نواب صاحب والا شان یہ امر ثابت و محقق ہے کہ مذہبی ترقی بھی قومی ترقی کا جزو ہے اور قومی ترقی
Flag Counter