Maktaba Wahhabi

358 - 384
یہ اِن کے الفاظ اس کتاب سے ریویو مندرجہ اخبار ’’کوہ نور‘‘ نمبر 44 جلد 30 مطبوعہ 2 جون 1882ء سے ہم نے نقل کئے ہیں۔ اصل کتاب کو ہم نے نہیں دیکھا خدا جانے اس میں کیا زیادتیاں اور بے جا نکتہ چینیاں جناب ممدوح اور اُن کی تصانیف کی نسبت مؤلف کتاب سے سرزد ہوئی ہیں۔ یہ الفاظِ کتابِ مذکور جو اس ریویو میں منقول ہیں سراسر غلط و محض خلاف واقع ہیں۔ اور صاف یقین دلاتے ہیں کہ جس شخص کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں اس نے نواب صاحب کی مصنفات کو خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ اُن تصانیف پر یہ گمان کرنا کہ وہ مذہبی مباحثہ حنفیہ و موحدین پر مشتمل ہیں صریح خلاف واقعہ ہے۔ نواب صاحب کی کسی کتاب میں حنفی و شافعی یا وہابی و بدعتی یا شیعہ و سنی کا مباحثہ پایا نہیں جاتا۔ کوئی ہم کو ان کی کتاب میں اس قسم کا ایک مباحثہ دکھاوے تو ہم سے ہماری قدرت کے موافق جو انعام چاہے پاوے۔ کوئی مرد میدان ہے آوے۔ نواب صاحب کی کتاب تو درکنار اس قسم کے مباحثے ان کی زیر حکومت ریاست میں ہونے نہیں پاتے۔ کبھی کسی نے سنا نہ ہو گا کہ جیسے دہلی، مراد آباد بریلی، لکھنؤ، بنارس، لاہور، امرتسر، وزیر آباد، سیالکوٹ، فرید کوٹ وغیرہ پنجاب و ہندوستان میں مذہبی مباحثے حنفیہ و اہل حدیث و سنی و شیعہ و وہابی و بدعتی کے ہوتے ہیں۔ ویسا مباحثہ کبھی شہر یا ریاست بھوپال میں ہوا ہو یا اس مضمون کا کوئی رسالہ نواب صاحب یا ریاست بھر میں کسی اور کی طرف سے نکلا ہو۔ ہاں اوائل عمر میں اور زمانہ طالب العلمی کے قریب نواب صاحب نے ایک دو رسالہ مولود و رد شیعہ میں لکھا تھا۔ جس کا نام کلمۃ الحق و کشف الالتباس
Flag Counter