Maktaba Wahhabi

351 - 384
ہے۔ کا جو کہ سیدنا و مولانا حضرت سید عبدالقادر گیلانی رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔ جب اس کا طبع ہونا شروع ہوا تو میں نے اور اُنہوں نے اس کا مقابلہ کیا۔ جب صحت نامہ کا وقت آیا تو وہ بیمار تھے۔ میں نے اور ایک اور شخص نے اس کا مقابلہ ان کے روبرو کیا۔ مرض استسقاء ہو گیا تھا۔ نہایت درجہ ایذا ہوئی۔ مگر بڑے مستقل مزاج تھے، وفات کے وقت تک استقلال رہا۔ ہراس اور بے صبری کا کلمہ زبان سے ہرگز نہیں نکلا۔ ایام بیماری میں شب کو میں اُن کے پاس رہتا تھا۔ رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ اور نہ لیٹا جاتا تھا۔ پلنگ پر قبلہ رُخ بیٹھے رہتے سامنے تکیے رکھ لیتے تھے۔ ان پر سر رکھ لیا کبھی اُٹھا لیا۔ اسی طرح ساری رات بسر ہوتی تھی۔ اکثر یا ارحم الراحمین کہتے تھے۔ بیماری کی تو شدت لکھنے کی طاقت نہیں۔ مگر علم کا شوق وہی۔ مجھ سے کہا بھائی تم آخر اور جگہ بیٹھ کر لکھتے ہو، ہمارے سامنے ہی لکھا کرو۔ میں اس وقت مرأۃ النسواں لکھتا تھا۔ پس میں نے ان کے روبرو لکھنا شروع کیا۔ ظہر سے عصر تک ان کے کمرے میں لکھتا پھر گھر جاتا۔ بعد عشاء کے پھر آ جاتا تھا تو رات کو بھی چراغ کے روبرو بیٹھ کر ان کے سامنے لکھتا۔ اِس سے ان کو انس ہوتا۔ اس اثناء میں باتیں بھی کرتے جاتے تھے۔ کئی دنوں سے اسی طرح ہوتا تھا۔ کبھی فرماتے بھئی آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو مثل دوا کے کہ جب بیمار ہوں تو ان کی حاجت ہو۔ اور ایک مثل غذا کے۔ کسی حالت میں اس سے چارہ نہیں ہے۔ تیری یہی مثال ہے۔ غرضیکہ روز چار شنبہ بست و نہم ماہ جمادی الاُخریٰ 1307ھ کو ناگاہ جی میں آیا کہ آج تین بجے سے ان کے پاس جاؤں۔ چنانچہ جلدی سے کھانا کھا کر ان کے پاس حاضر ہوا تو تکیے
Flag Counter