میں بہت اضافہ کیا گیا ہے۔ گویا خود مستقل کتاب ہے۔ پس جس کتاب کی تلخیص کی۔ اس کتاب کا نام مع نام مصنف دیباچہ میں لکھ دیا ہے۔
3۔ تیسری قسم یہ ہے کہ کسی کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً عربی سے فارسی یا اُردو میں۔ جیسے ترجمہ بلوغ المرام فارسی میں یا ترجمہ درربہیہ اُردو میں جس کا نام فتح المغیث ہے۔ یہ کتب بہت ہیں۔ جس کا کا ترجمہ ہے اس کا نام مع نام مصنف دیباچہ میں لکھ دیا ہے۔ اس قسم کی تالیف ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے۔ میرے علم میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ غیر کی کتاب کو نام بدل کر اپنی طرف منسوب کر لیا ہو، ان کی کتابیں اقسامِ مذکورہ سے خالی نہیں ہیں۔
اب رہا بعض معاصرین کا انتقاد سو یہ کچھ نئی بات نہیں ہے، ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ کتب تاریخ و تراجم علماء میں اس کی تفصیل خوب لکھی ہے۔ معاصرت اصل منافرت ہوتی ہے۔ دیکھو حافظ ابن حجر و عینی و سیوطی و سخاوی و علامہ ابن تیمیہ و ابو حیان وغیرہم جن میں کیا کچھ ہو چکا ہے۔ خطا و نسیاں و سہو و غلط لوازمِ بشری سے ہے۔ سوائے انبیاء علیہم السلام کے کوئی معصوم نہیں ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ومن ذالذي ترضيٰ سجاياه كلها
كفي المرء نبلاً ان تعد معائبه
صاحب اکتفاء القنوع کو تو جیسے خبر پہنچی اس کے مطابق لکھا۔ بعض لوگ اور ہندوستان میں بھی اس قسم کا خیال رکھتے تھے۔ اس خیال کی بنا یا تو نادانی پر ہے یا حسد پر۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے اپنا دیکھا بھالا جانا بوجھا لکھا ہے۔ شیخنا المرحوم کو خاکسار سے ایک مناسبت
|