طبعی ایسی تھی کہ شاید ویسی کسی سے ہو۔ جب مدرسہ سلیمانیہ کا اہتمام اُن کے سپرد ہوا، اور میں بھی وہیں مُدرِس تھا تو اکثر ملاقات و یکجائی رہتی تھی۔ عجب لطف و محبت سے پیش آتے تھے۔ ہر وقت ہنس کر کشادہ پیشانی سے ملتے بغایت حسنِ خلق کا برتاؤ رکھتے تھے۔ مسک الختام شرح بلوغ المرام کا مبیضہ مدرسے ہی میں کیا۔ یہ کتاب دو مجلد کلاں میں ہے۔ دو بار اپنے ہاتھ سے اس کو لکھا۔ جب میر منشی ہوئے پھر نائب دوم، پھر نواب بنے تو مجھے باجازت سرکار عالیہ دام اقبالہا اپنی خدمت میں بلا لیا۔ اس وقت سے لے کر اُن کی وفات تک اُن کی خدمت میں رہا۔ جس لطف سے پیش آتے تھے وہی لطف ہمیشہ رہا۔ خفا ہونا کیسا! کسی فکر میں ہوں جب ملیں تو مسکرا کر ملیں۔ ایسا خلق کسی کا دیکھا نہ سنا۔ شرح دُرربہیہ مسمیٰ بہ روضہ ندیہ تالیف فرمائی۔ مسودہ خاص سے میں نے ایک نسخہ نقل کیا تاکہ طبع کے لیے لکھنؤ جائے۔ بعد ازاں آٹھ ماہ میں فتح القدیر سے فتح البیان ملخص فرمائی۔ پھر مدارک و خازن سے اس پر اضافہ کیا۔ پھر منظور ہوا کہ جمل (تفسیر۔ شرح۔ جلالین) وغیرہ سے کچھ اور زیادہ ہو چونکہ اصل مسودہ میں اس کی گنجائش نہ تھی۔ اس لیے مجھے حکم دیا کہ مسودہ سے مبیضہ کروں۔ دو تین سال میں خاکسار نے اُس کا مبیضہ کیا۔ جس قدر اجزاء تیار ہوتے خدمت شریف میں پیش کرتا تو آپ جمل سے اس پر اضافہ فرماتے تھے۔ جب چھپنا شروع ہوا تو اس کی کاپی کا مقابلہ میں اور وہ کرتے۔ وہ پڑھتے تھے اور میں سنتا تھا۔ اسی طرح ساری کتاب کا مقابلہ ہوا۔ پھر پے در پے کتب تالیف فرماتے رہے۔ سوائے چند کتب کے جو کہ لکھنؤ یا قسطنطنیہ و مصر میں طبع ہوئیں۔ ساری تالیف کا مقابلہ میں نے اور انہوں نے کیا۔ وہ پڑھتے اور میں سنتا۔ اُن کی تالیفات عربی و
|