نواب صاحب صرف عالم نہ تھے، بلکہ حکمران بھی تھے۔ اس لیے فوجی بینڈ باجے کو جائز سمجھتے تھے۔ آپ کی قبر بھوپال میں ہے اور کمر تک اونچی کر کے محفوظ کر دی گئی ہے۔ کوئی عمارت یا چھت گیری وغیرہ نہیں۔
نواب صاحب اپنی زندگی کے آخری دَور میں تمام سامان، روپیہ، جائیداد وغیرہ اپنے ورثاء کے نام کر گئے تھے۔ اس میں ایک حصہ نواب شاہ جہان بیگم کے نام بھی تھا۔ ایک صندوق سونے کی اینٹوں کا بھی تھا۔ (ایک اینٹ چالیس تولے کی) اس کے متعلق اپنے بڑے بیٹے نواب نور الحسن خاں کو وصیت کر گئے تھے کہ اسے نہ ہاتھ لگانا، یہ تمہاری سرکار اماں کا ہے، چنانچہ یہ صندوق مہینوں پڑا رہا، اور نواب شاہ جہان بیگم نے اسے لینا پسند نہ کیا۔ آخر کار انہوں نے کہا کہ:
’’میں یہ لے کر اب تم لوگوں کو دیتی ہوں۔‘‘
اس میں سے اٹھارہ اینٹیں ہماری خوشدامن کے حصہ میں بھی آئی تھیں (اس وقت سونا پچیس (25) روپے تولہ تھا) یہ چھٹا حصہ تھا۔ اس سونے کا جو نواب صفیہ جہاں بیگم کے حصے میں آیا تھا۔ اور گویا بھائیوں کو اس کا دگنا دگنا ملا تھا۔
نواب صاحب اکثر نور محل کی مسجد میں جمعہ ادا کرتے تھے۔ کبھی کبھی خود بھی پڑھایا کرتے تھے۔ تمام بچے بھی ساتھ ہوتے تھے، ہماری خوشدامن بھی کبھی کبھی ساتھ ہوتی تھیں۔ ہماری خوشدامن کہتی ہیں کہ سب لوگ زور سے آمین کہتے تھے۔
نواب سکندر جہاں بیگم والدہ نواب شاہ جہاں بیگم حج سے واپسی میں قنوج آئی تھیں۔ یہیں نواب صاحب کے نکاح کی بنیاد پڑی۔ اس وقت
|