بیان کرتی ہیں۔
نواب صاحب کی اپنی اور اپنی بہنوں کی اولاد میں ہر ایک کا وظیفہ یوم پیدائش سے مقرر ہو جایا کرتا تھا۔ ہر ایک کے سن شعور کو پہنچنے تک وہ رقم جمع ہوتی رہتی تھی۔ ہر ایک کا حساب کتاب باقاعدہ کاغذات پر رہتا تھا۔ اور ہر سال ہر ایک کی رقم میں سے پابندی سے زکوٰۃ نکالی جاتی تھی، ہر ایک کی تھیلی اور حساب کتاب کا کاغذ الگ الگ الگ رہتا تھا، اور سب رقم بڑے بڑے مقفل صندوقوں میں بنتی تھی، نواب صاحب کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ مال پر زکوٰۃ واجب ہونے کے قائل تھے نہ کہ اشخاص پر ورنہ نابالغوں کی نہ نکالتے، ہر فرد کے لیے ساٹھ روپے ماہانہ یوم پیدائش سے ملتا تھا۔ ہماری خوشدامن کو ایک سو ساٹھ روپے ماہانہ ملتے تھے، ان کی بڑی بہن کا وظیفہ بھی بعد وفات ان ہی کے نام جاری رہا۔ چنانچہ ہماری خوشدامن کا گاؤں سمگرہ وظیفہ کی جمع شدہ رقم سے خریدا گیا تھا۔
نواب سید مہدی خاں عرف ابن میاں مرحوم نواب صفیہ جہاں بیگم کی سب سے چھوٹی اولاد ہیں۔
نواب صاحب جب کبھی گاؤں کا دَورہ کرتے تو مونا پالکی پر کرتے تھے اور پالکی میں قلم و دوات اور کاغذ اور کتابیں اپنے ساتھ رکھتے تھے، حتیٰ الامکان وقت ضائع نہ ہونے دیتے تھے، دورانِ سفر بھی مطالعہ کتب کرتے اور ضروری مضامین نوٹ کرتے رہتے، اولاد کی تربیت کے لیے جہاں تعلیم کا انتظام تھا وہاں شہ سواری سکھانے کے لیے بھی معلم رکھتے تھے۔ اس حدیث کے موافق جس میں بچوں کو تیراکی، شہسواری، اور تیر اندازی سکھانے کا حکم دیا گیا ہے۔
|