کرتے ہیں۔ اگر بعض مسائل مثلاً استواء وغیرہ میں مذہبِ سلف کی بجائے مذہبِ خلف پر تعصب اور اپنی لمبی چوڑی دلیلوں سے اپنا چہرہ اپنے نامہ اعمال کی طرح سیاہ کر لیا ہے۔ تو ان جیسوں کا جواب دانشمندانہ لوگوں کے ذمہ نہیں ہے۔ لَوْذَاتُ سِرَارٍ لَطَمتنِيْ
خدا پرستانِ حق آگاہ کی ایک جماعت نے اس عاجز کی تحریک و اشارہ کے بغیر ان خرافات اور لغویات پر توجہ کی ہے۔ یہاں تک کہ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچایا ہے۔
﴿ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ﴾
’’مومنین کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔‘‘
ان مدعیانِ علم اور اس زمانے کے مؤلفین و معاصرین کی اپنی کتابوں میں تدلیس و تحریف اور سرقہ بازی اس قدر موجود ہے کہ ضبطِ تحریر میں نہیں آ سکتی۔ مگر نبضِ قلم کی پہچان رکھنے والے اور سخن کے مزاج شناس پر یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی ؎
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہبِ ما حیلہ و فن نیست
والي اللّٰه المشتكي ثم اللّٰه المشتكي
اس کے بعد اپنی پسندیدہ کتب کی فہرست تحریر فرمائی ہے۔ (مترجم)
|