کی تہمت و شرمناکی سے مبرا ہے۔اور اس طائفہ میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی مخاطب نہیں ہوتا۔ مگر ایسا شخص جو اپنی کج طبعی کے تقاضوں کے پیش نظر اپنی کتابوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکا ہو وہ اُلجھ پڑتا ہے۔ اور اہل بدعت کے انداز میں اہل سنت سے لڑتا جھگڑتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی طرف بھی ہم توجہ نہیں کرتے اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی ذرا سی تحریک پر اپنے مقام سے ہٹ جانا اور جاہلوں کی بات سے پریشان ہونا اور انتقام لینے پر آمادہ ہو جانا علماء آخرت کا خاصہ نہیں ہے ؎
چین برجبیں زجنبش ہرخس نمی زنند
دریا دلاں جو موجِ گہر آرمیدہ اند
اَشَدُّ النَّاسِ بَلَآءُ الْاَنْبِيَآءُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ
سلف صالحین کو بھی عموماً ایسے لوگوں سے نجات حاصل نہیں رہی۔ پس ان صالحین کے اخلاف کے لیے بھی اس پر طمع کی آنکھ جمانا ایک فضول کام سے زیادہ نہیں۔ اپنی بڑائی کے لیے لڑائی جھگڑے کا طریقہ اور نام نہاد مناظرہ دین کو خراب کرنے والوں کا شیوہ ہے۔ علمائے راسخین کا نہیں۔ کسی بات کے برحق ظاہر ہو جانے کے بعد بھی اپنی بات پر بلا وجہ اڑے رہنا حق گزینی اور آخرت بینی کے خلاف ہے۔ معلوم نہیں کہ ان رنگا رنگ کتابوں سے جو علم توحید و فقہ اصول و تفسیر و حدیث وغیرہ کے سلسلے میں لکھی گئی ہیں اور عرب و عجم کے علاقوں میں اللہ کی توفیق و نصرت سے قبول کی گئی ہیں۔ کسی ایک عالم دین نے بھی اختلاف کیا ہو اور عوام کالانعام جو لوگوں کی پیروی
|