کے واقف لوگ جاتے ہیں کہ اس ریاست کی رعایا اور عوام کے عمل کی صورت اس سے پہلے کیسی تھی۔ اور اب کیسی ہے۔ ان دونوں میں بڑا فرق پڑ گیا ہے۔ دُور دراز کے شہریوں کے لیے کتابوں کی تالیف و اشاعت سے تغییر منکر کا فرض ادا کر رہا ہوں۔ لوگوں کے طور طریق اور حکامِ وقت کے خلافِ اسلام احکام کے اجراء سے دل میں زبردست غم و غصہ پیدا ہوتا ہے۔ اور میں ہرگز کفر و فسق اور عوام کی بدعات سے راضی نہیں ہوں بلکہ دل سخت اضطراب میں رہتا ہے ؎
غمِ مہجوری سنت کشم تا چنداے زائر
ز آہم آتشے در دفترِ اغیار بایستے
الحمدللہ کہ باوجود علم و دولت کے سرمایہ کے ہم کو اپنے معاصرین سے کوئی کَدْ نہیں ہے۔ ان میں سے ہم نے کبھی کسی کا تعاقب نہیں کیا اگرچہ اس کے تمام وسائل بھی موجود ہیں۔ نیز ہمیں ان لوگوں کی تالیفات کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں جو کتاب و سنت کے علوم سے بے علم اور جاہل ہیں۔ مگر اپنے آپ کو فریدِ دہر اور وحید عصر سمجھے بیٹھے ہیں۔ جن کے قول و فعل میں کوئی مطابقت نہیں۔ ان کی تمام تر مساعی اسی امر پر مرکوز ہیں کہ عوام الناس اور اُمراء میں جاہ و منصب حاصل کیا جائے، اپنے ہم عصروں پر برتری حاصل کی جائے اور سنت خیر الانام کی بنیادوں کو ڈھا دیا جائے۔ مگر الحمدللہ ہمیں ایسی کوئی خواہش نہیں ؎
آمد اندیشہ دنیا بطلبگاریِ دل
گفتم آں شیفتہ بے سروپا حاضر نیست
اللہ کا شکر ہے کہ یہ بندہ عاجز اپنے احوال کے غلبہ سے اس قسم
|