اور عصر جاہلیتِ اُولیٰ کے ساتھ جا ملا ہے۔ کسی ایک شخص کو بھی عرب و عجم بھر میں اس سلسلے میں کچھ کہنے کی ہمت باقی نہیں رہی۔ سوائے اس کے کہ ہاتھ سے تو کسی برائی کو دور کرنے کا یارا نہیں فقط زبان ہی سے یہ فرض ادا کیا جائے۔ اور تالیف کے پیرائے میں دور و نزدیک کے علاقوں کے لوگوں کو شرع کی تبلیغ کی جائے اور ہاتھ کی اطاعت (خدمت) اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ لہٰذا شرع و عقل کی مصلحت تالیف ہی میں ہے، ممکن ہے کہ کسی وقت کسی صاحبِ دل خدا پرست کی نظر ان تالیفات پر پڑے، اور وہ مقدور بھر اس سے فائدہ حاصل کر لے۔
حدیث شریف میں ہے ’’جس کسی نے تم میں سے کوئی برائی دیکھی تو اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے دُور کر دے، اگر نہ کر سکے تو زبان سے (اس کی ممانعت کرے) اس سے بھی ممکن نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ ہاتھ سے برائی دُور کرنا سوائے حکومت کے ممکن نہیں اور اہل علم کا کام اس برائی کو زبان سے دُور کرنا ہے۔ اور ہر مسلمان کا کام دل سے اسے برا جاننا ہے۔ اِن تینوں اقسام امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے ہر ایک مسلمان کا ہٹ جانا اس کے ایمان کے فقدان کی دلیل ہے۔ نعوذ باللہ منہ
الحمدللہ کہ اس ناتواں کو ان تینوں اقسام پر قدرت عطا کی گئی ہے یعنی یہ علاقہ کہ میرا مسکن ہے اور یہاں کے امور و احکام ظاہر بینوں کی نظر میں مجھے تفویض کئے گئے ہیں۔ اور (وہ سمجھتے ہیں) کہ میں خود ان کی درستی کے لیے کسی سختی کا خواہاں نہیں ہوں۔ درباری معاملات
|