عرضت علي الخباز نحو المبرد
وكتبا حسانًا للخيل بن احمد
و رؤيا ابن سيرين وخط ابن مقلةٍ
وتوحيد جهمان و فقه محمدٖ
وناشدته شعرا لكميت وجردلٖ
بفنة لحنٍ للقريض بن معبد
فلم يغن عني كلما قد ذكرته
سوٰي درهم ناولته كان في يدٖ
اہل اللہ کبھی غنا کو اختیار کرتے بھی ہیں تو اس لیے کہ اللہ کے دشمنوں کی نظروں میں معزز و مکرم رہیں اور کسی کے محتاج نہ ہوں، حبِ ماہ و جاہ کے لیے اختیار نہیں کرتے۔ اس زمانہ میں صاحبِ عیال سے تو ہرگز فقر پر صبر نہیں ہو سکتا بلکہ بحکم:
((كَادَ الْفَقْرُ اَنْ يَّكُوْنَ كُفْرًا))
ایمان و ایقان کے زوال کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس لیے ہر عاقل کے لیے لازمی ہے کہ وہ افراط و تفریط سے بچ کر میانہ روی اختیار کر لے۔
﴿ وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧﴾﴾
طلبِ معاش میں اجمال واجب ہے، جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ دنیا میں با آبرو رہتا ہے اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ مناقشہِ حساب سے بری ہو جائے گا۔ میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا، اب طولِ تقریر کا نہیں بلکہ ختمِ تحریر کا وقت ہے۔ میری دعا اس جگہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ:
((اَللّٰهُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْاُمُوْرِ كُلِّهَا وَ اَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَ عَذَابِ الْاٰخِرَةِ))
اور دوسری دعا یہ ہے:
﴿ رَبِّ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا
|