﴿ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ [1]
ہر انسان کا رزق زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہے:
﴿ وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴿٢٢﴾﴾ [2]
جب اس پر انہیں یقین کامل ہو گا تو وہ اللہ کے سوا کسی سے کچھ سوال نہ کریں گے۔ اور دنیا کے لیے ذلت کے متحمل نہیں ہوں گے۔ بلکہ غنا کی بجائے عزت و وقار کے ساتھ فقر کو اختیار کریں گے اور اہلِ دَول و ریاست کے قریب و قرابت سے ایسے بھاگیں گے جیسے کوئی غضبناک شیر سے بھاگتا ہے۔ صاحبِ اولاد، امیر یا غریب بیوہ عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے بھی اجتناب کریں گے۔ کیونکہ اس زمانِ فاسد و عصر کاسد میں اس کے مفاسد حساب سے باہر ہیں۔ اور ناکح کو عذابِ الیم اور عقابِ دائم میں جینا مرنا پڑتا ہے ؎
دادیم تراز گنجِ مقصود نشان
گرما نرسیدیم تو باری برسی
اگر ایسا نہ کریں گے تو وہ جانیں اور ان کا کام جانے، مجھ سے جو بنا اور اللہ نے بنایا، راحتِ دنیا اور فضیلتِ عقبیٰ کے اسباب ان کے لیے جمع کر دئیے ہیں۔ بشرطیکہ اسراف نہ کریں اور قلیل پر قناعت کریں، دنیا و اہلِ دنیا کو ہیچ اور پوچ سمجھیں، اور آخرت پر اسے ترجیح نہ دیں:
((اَلْمَالُ غَادٍ وَ رَائِحٌ))
دنیا فضائل سے نہیں بلکہ وسائل سے ملتی ہے، اور محتاج آدمی سب کی نظر میں حقیر و ذلیل ہوتا ہے گو کتنا ہی فضل و کمال کیوں نہ رکھتا ہو ؎
فصاحة سحبان وخط ابن مقلةٍ
وحكمة لقمان وزهد بن ادهمٖ
اذا اجتمعت في المرءِ والمرءُ مفلس
قليس له قدر عليٰ وزنِ درهمٖ
|