متجاوز ہو رہی ہے تو ہر دم ایمان کا خوف لگا ہوا ہے، ہمارے سلف چالیس سال کے بعد اشغالِ دنیا سے کنارہ کش ہو جاتے تھے، اور ہماری شامتِ اعمال کو دیکھو کہ ابھی تک ترک و تجرید کی توفیق نہیں پائی ؎
دمِ اخیر ہے اسے داغ! توبہ کر توبہ
کہ روسیاہ ابھی اختیار باقی ہے
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ اَسْتَغْفِرُكَ وَ اَتُوْبُ اِلَيْكَ مِنْ ذُنُوْبِيْ كُلِّهَا عَلِمْتُهَا اَوْ لَمْ اَعْلَمْهَا اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ
مجھے اِس رسالہ کے لکھنے کی ضرورت تو نہ تھی۔ لیکن جب میں نے علامہ شعرانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’سننِ کبریٰ‘‘ کو دیکھا کہ اس میں انہوں نے اپنے مِنَن اور قدرے مِحَن لکھے ہیں تو مجھے خیال آیا کہ میں بھی اپنے کچھ مِنَن و مِحَن لکھوں اور اس بہانہ سے اللہ تعالیٰ کے شکر و سپاس کا کچھ اظہار کروں، اگرچہ نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات مجھ پر بے حساب ہیں۔ اگر ساری عمر ایک سجدہ میں گزر جائے تو ایک نعمت کا شکر بھی ادا نہیں ہو سکتا۔ پھر مِنَن و احساناتِ بے پایاں کس طرح ضبط و بیان میں آ سکتے ہیں۔
﴿ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿١٩﴾﴾ [1]
خصوصاً میرے جیسا انسان جس کے گناہ بہت ہوں وہ اگر اللہ تعالیٰ کا کچھ ڈر رکھتا ہو تو نہایت شرم کی وجہ سے اس کی زبان رب تعالیٰ کے سامنے جاری نہیں ہو سکتی ؎
اُحِبُّ مَنَاجَاةَ الْحَبِيْبِ بِاَوْجُهٍ
وَلٰكِنُ لِسَانُ الْمُذْنِبِيْنَ كَلِيُلٗ
|