اگر ملتی بھی تو کب لائقِ اطمینان تھی جب تک کہ دنیا میں کامل ایمان پر خاتمہ نہ ہو۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ [1] سے ایک شخص نے کہا کہ:
’’میں نے تمہیں جنت میں خراماں دیکھا۔‘‘
فرمانے لگے کہ:
’’کیا شیطان کو میرے اور تیرے سوا کوئی اور نہ ملا جس سے وہ مسخرا پن کرتا۔‘‘
یہی مثال میری ہے بلکہ میں نے غلط کہا۔ اس لیے کہ مالک رحمہ اللہ نے انکار از راہِ تواضع کیا تھا اور کیا عجب کہ صاحبِ خواب سچا ہو۔ بلکہ یہی بات یقینی ہے کیونکہ از خود خواب بنانا گناہِ کبیرہ ہے اور اس وقت کے لوگ اہلِ تقویٰ ہوتے تھے۔ لیکن میرا حال و قال و فعال اس کے خلاف ہے کہ یہ سب اہل نار اور منکرینِ یوم الحساب کے سے اعمال ہیں۔ اور میرے بارے میں تو کسی نے بھی کوئی خوابِ صادق نہیں دیکھا۔ اور اگر دیکھا بھی ہوتا تو میں اسے دیکھنے والے کے حال پر محمول کرتا۔ واللہ! باللہ! اگر اللہ نے یاس و کفر نہ فرمایا ہوتا تو میں بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ کیونکہ عمل کچھ نہیں اور مغفرت کی امید بلکہ یقین ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا غرور (دھوکہ) ہو گا کہ گناہ تو اتنے ہیں کہ زمین سے آسمان تک اور شرق سے غرب تک میرے معاصی سے بھر جائے، طاعت کو دیکھو تو بجز زبان سے کلمہ کہنے کے کسی فعل کی قول سے تصدیق نہیں ہوتی۔ یہ اگر نفاق جلی نہیں تو پھر کیا ہے؟ اللہ ہی رحم فرمائے، مرنے سے پہلے عملِ خیر کی توفیق بخشے اور کتابِ سابق میں اگر نجات لکھی گئی ہے تو کچھ ٹھکانہ ہے۔ ورنہ اپنے حال نے تو بالکل نا امید کر رکھا ہے۔ اب جو عمر فانی پنجاہ (50) سال سے
|