فَكُلٌّ مُيَسَرٌ لِما خَلقَ لَهُ أمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أهْلِ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أهْلِ السَّعَادَةِ وَأمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أهْلِ الشَّقاءِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أهْلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ: { فَأمَّا مَنْ أعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ}))[1] (متفق علیہ)
کو اسی عمل کے لیے توفیق ملے گی جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، اہل سعادت میں سے ہے تو عملِ سعادت کی توفیق اور اگر اہلِ شقاوت میں سے ہے تو عملِ شقاوت کی توفیق دی جائے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت فرمائی پس جس نے (راہِ خدا میں مال) دیا اور پرہیزگاری کی اور نیک بات کی تصدیق کی پس ہم اس کو آسانی (کی راہ) کی توفیق دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور بے پروائی کی اور نیک بات کو جھٹلایا پس ہم اس کو تنگی کی (راہ کی) توفیق دیں گے۔‘‘
معلوم ہوا کہ نفسِ اعمال کو نجات و ہلاکت میں کچھ دخل نہیں ہے۔ لیکن اعمال انجام کی علامت ضرور ہیں:
((اِنْ خَيْرًا فَخَيْرًا وَ اِنْ شَرًّا فَشَرًّا))
یہ حدیث جس طرح ڈرانے والی ہے اسی طرح خوشخبری دینے والی بھی ہے ہمیں چاہیے کہ اپنی حالتِ حسنیٰ پر بے خوف نہ ہوں اور کثرتِ معاصی سے مایوس نہ ہوں۔ ہمیں حکم ہے کہ طاعات پر مواظبت کریں اور گناہوں سے بچیں۔ لہٰذا ہم پر ہر دم اس امر کی بجا آوری میں لگے رہنا اور ہر دم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتے رہنا اور جہنم سے پناہ مانگتے رہنا واجب ہے۔ مقدر میں جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ ضرور ہو گا۔ ہماری طلب سے نہ جنت ملے اور نہ جہنم سے بچ سکیں۔ اے اللہ! اگر تو نے میرا نام اشقیاء کے زمرہ میں لکھا ہے تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا نام ہلاک ہونے والوں کے دیوان سے خارج فرما کر دیوانِ سعداء
|