فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَايَكُوْنُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إلا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا)) (متفق علیہ)
سبقت کر جاتی ہے اور وہ کوئی جہنمیوں کا سا کام کر کے داخلِ نار ہو جاتا ہے۔ اور تم میں سے ایک جہنمیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے اور کتاب سبقت کر جاتی ہے۔ اور وہ جنتیوں کا سا کام کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘
یہ حدیث اس بات پر حجت ہے کہ جس بات کے ساتھ ’’کتابِ محفوظ‘‘ سابق ہو چکی ہے، اس میں کچھ فرق نہیں پڑتا، اور جب تک موت عملِ خیر اور ایمانِ صادق پر نہ آئے، ظاہر اعمال کا کچھ اعتبار نہیں۔ اس حدیث میں جس طرح صلحاء کے لیے زجر ہے۔ اسی طرح نافرمانوں کے لیے اس میں بشارت ہے۔ اس میں رجا و خوف اور مسئلہِ قضا و قدر سب کچھ کا بیان ہے۔ اس حدیث سے زیادہ خوفناک حدیثِ ابن عمرو رضی اللہ عنہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ فرمایا:
’’تم جانتے ہو کہ یہ دونوں کتابیں کیا ہیں؟‘‘
ہم نے کہا کہ:
’’ہم تو نہیں جانتے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کتاب دائیں ہاتھ میں تھی اس کے متعلق فرمایا:
((هذا الكتاب من رب العالمين، فيه أسماء أهل الجنة، وأسماء آبائهم وقبائلهم، ثمَّ أُجمل آخرهم، فلا يزاد فيهم، ولا ينقص منهم أبداً))
’’یہ اللہ کی طرف سے ایک کتاب ہے جس میں اہل جنت کے نام، ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں اور پھر آخر میں بالاجمال ان کا بیان ہے۔ پس اب کبھی بھی ان میں کمی بیشی نہ ہو گی۔
|