انہیں اس شہر بھوپال میں خواب میں اس طرح دیکھا کہ میں ایک مسجد میں مغرب کی نماز کے لیے گیا ہوں، لوگ نماز پڑھ کر مسجد سے چلے گئے ہیں۔ مسجد کے متصل ہی قبرستان ہے۔ میں نے کہا کہ موتیٰ پر فاتحہ پڑھتا ہوں۔ جب فاتحہ پڑھ کر لوٹا تو ایک قبر پر سے گزر ہوا۔ وہ شق ہو گئی اور ایک جسیم شخص اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ وہ میرے والد معلوم ہوتے تھے۔ مجھ سے فرمانے لگے بھائی وہ کام کرو جو آخرت میں کام آئے۔ میں ڈر گیا۔ اور پوچھا کہ وہ کام جو آخرت میں کارآمد ہو، کیا ہے؟ اُنہوں نے کچھ جواب دیا جو مجھے یاد نہیں رہا، اور میں وہاں سے چل دیا۔ صبح کوچی میں حساب لگایا کہ یہ کیا نصیحت تھی؟ تو معلوم ہوا کہ کچہری کے بعض منشیوں سے میری ملاقات تھی، جو فاسق تھے۔ اور میرے لیے بھی باعث فسق بنتے تھے، اس دن سے میں نے ان کی راہ و رسم چھوڑ دی۔ اور اللہ نے میرے شغلِ علم کے شوق کو زیادہ کر دیا۔ وللہ الحمد!
یتیمی کی یہ مصیبت بلوغت تک شاملِ حال رہی۔ جب بالغ ہوا تو طلبِ علم کے لیے گھر سے باہر نکلا اور مجھے طلبِ معاش کی کوئی فکر نہ تھی۔ جب علومِ درسیہ پڑھ کر دہلی سے وطن واپس آیا تو خیال ہوا کہ کسی جگہ ملازمت کرنی چاہیے۔ بھوپال آ کر آستانہ خاص رئیسہ مرحومہ میں دو ماہ بعد رمضان 1271ھ میں ملازم ہو گیا۔ دو برس تک ملازم رہا پھر وطن واپس آ گیا۔ راستہ میں کانپور سے گزر ہوا تو وہاں فوج برگشتہ تھی، مسافروں کے قافلہ کے ہمراہ ہزار دشواریوں کے ساتھ وطن پہنچا۔ والدہ اور ہمشیرگان کو دیکھ کر مسرت ہوئی۔ ایک سال تک وطن میں گوشہ گزین رہا۔ سرکاری افواج نے جب رئیس فرخ آباد کی بغاوت کی وجہ سے قنوج کو تاراج کیا تو میرا گھر بھی دست برد غنیمت ہو گیا۔ اثاث البیت میں سے چند کتابوں کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہی۔ تب بلگرام چلا گیا اور ہنگامہ غارت گری کے فرو ہونے تک وہاں رہا۔ پھر وہاں سے مرزا پور گیا، اور اکبر علی خان صاحب سوداگر شاہجہانپوری کے مکان پر دو تین ہفتے تک مہمان
|