عَلَى حَسَبِ دِينِهِ ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ ، فَمَا يَبْرَحُ البَلَاءُ بِالعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ ))) (رواہ الترمذی)
’’دنیا میں سب سے زیادہ آزمائش کن لوگوں کی ہوتی ہے؟ فرمایا: انبیاء کی پھر درجہ بدرجہ آدمی اپنے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر دین میں سخت ہو تو آزمائش بھی سخت اور اگر دین میں نرم ہو تو آزمائش بھی نرم ہوتی ہے، پس بندے پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چلنے لگتا ہے کہ اس کی تمام خطائیں معاف ہو چکی ہوتیں ہیں۔‘‘
یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ ہر شخص کی آزمائش دین میں اس کی پختگی کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر دین میں سخت ہے تو آزمائش بھی سخت اور اگر دین میں نرم ہے تو آزمائش بھی نرم ہو گی۔ انبیاء علیہم السلام پر اسی وجہ سے آزمائش سخت ہوتی تھی کہ وہ دینِ خدا میں نہایت درجہ شدید ہوتے تھے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
((أىُّ النَّاسِ أشدُّ بلاءً ؟ قالَ : الأنبياءُ ثمَّ الصَّالِحونَ ، و قد كانَ أحدُهم يُبتلَى بالفَقرِ ، حتَّى ما يجِدُ إلَّا العَباءةَ يجُوبُها فيلْبسُها ، و يُبتلَى بالقُمَّلِ حتَّى يقتُلَه ، و لأحدُهُم كانَ أشدَّ فرَحًا بالبَلاءِ ، من أحدِكم بالعَطاءِ)) (رواه الحاكم وله شواهد كثيرة)
’’دنیا میں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر علماء اور پھر نیک لوگوں کی۔ پہلے زمانے میں جوؤں کے ساتھ بھی آزمائش ہوتی تھی حتیٰ کہ وہ انسان کو قتل کر دیتی تھیں اور کبھی آزمائش فقر کی صورت میں نازل ہوتی تھی حتیٰ کہ بدن پر لپٹی ہوئی چادر کے سوا کوئی چیز نہ ہوتی، جتنا تم عطاء پر خوش ہوتے ہو، اس سے زیادہ وہ بلا پر خوش ہوتے تھے۔‘‘
|