Maktaba Wahhabi

212 - 384
یہاں جو اِک ذرہ لکھا گیا ہے ہم کو تو اس کے شکر سے بھی عجزِ کلی ہے۔ سب ظاہری و باطنی احسانات کا شکر کب بجا لایا جا سکتا ہے؟ یہ محَن جو اس جگہ ذکر کئے جائیں گے یہ بھی در حقیقت مِنَن ہی ہیں کیونکہ جس مرض کے بعد صحت حاصل ہو اور جس مصیبت کے بعد عافیت میسر آئے، وہ بلاء اور ابتلاء نہیں بلکہ در حقیقت احسانِ عظمیٰ اور نعمتِ کبریٰ ہے۔ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ میں فرمایا: ((اَلزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا اَنْ تَكُوْنَ فِيْ ثَوَابِ الْمُصِيْبَةِ اِذَا اَنْتَ اُصِبْتَ بِهَا اَرْغَبَ فِيْهَا لَوْ اَنَّهَا بَقِيَتْ لَكَ)) (رواہ الترمذی) ’’دنیا میں بے رغبتی یہ ہے کہ تجھے بقاء مصیبت میں اس لیے رغبت زیادہ ہو کہ مصیبت پر ثواب ملتا ہے۔‘‘ چہ خوش بروئے دلِ تنگ مادرے وا کرد خدا دراز کند عمرِ زخمِ کاریِ ما حدیثِ صہیب رومی رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ: ’’مومن کا عجب حال ہے کہ اس کا سارا کام اچھا ہے۔ اگر مسرت حاصل ہو تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر مضرت پہنچے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘ (رواہ مسلم) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اے رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) : ((أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ ، قَالَ: ( الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ
Flag Counter