خواہ خاص ان کے اقوال ہوں یا ان کے تلامذہ و اصحاب کے، وہ سارے احکام قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہیں۔ اگر یہ بات ہوتی تو مذہب اہل حدیث ان کے دائرہ سے خارج ہو جاتا۔ بلکہ سنتِ صحیحہ سے جتنے مسائل ثابت ہیں وہ اِن چاروں مذاہب کے اندر منتشر اور موجود ہیں
چہ خوش گفت دانا کہ دانش بسے ست
د لیکن پراگندہ باہر کسے ست
ائمہ اربعہ کے درمیان اصولِ مذاہب میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ صرف بارہ مسائل میں ماتریدیہ اور اشعریہ کے درمیان نزاعِ لفظی سے مشابہ قدرے اختلاف ہے۔ فروعی مسائل میں بھی اس طول و عرض کے باوجود چار سو سے زیادہ مسائل میں اختلاف نہیں ہے۔ پھر جب انہیں تشدید و تخفیف پر محمول کیا جائے، جیسے علامہ شعرانی رحمہ اللہ نے کیا ہے، یا توفیق و تطبیق دی جائے، جیسے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کیا ہے تو پھر تو بہت تھوڑے مسائل باقی رہتے ہیں جن میں مساغِ ترجیح و تضعیف ہو۔ پھر خاص طور پر حنفی مذہب میں تو ہر مسئلہ مذہب اہل حدیث کے مطابق ملتا ہے، بشرطیکہ امام اعظم، امام ابو یوسف یا امام محمد رحمہم اللہ کے مذہب کی قید نہ لگائی جائے، بلکہ ان میں سے جس کا مذہب یا قول ظاہر سنت کے موافق ہو اسے مفتیٰ بہ ٹھہرایا جائے۔ اِسی لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ:
’’مذہبِ حنفی سب مذاہب سے زیادہ حدیث کے موافق ہے لیکن اکثر لوگ عصبیت کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے ہیں اور اہل حق سے اپنی رائے کی مذمت سنتے ہیں۔ پھر جو شخص اپنے دین پر بخل رکھتا ہو، تقویٰ و احتیاط اس کا شعار دثار ہو تو وہ
|