یہ بحث یہاں تک طول کھینچ گئی کہ ایک دوسرے کی تضلیل و تکفیر تک نوبت پہنچ گئی، حالانکہ یہ مسئلہ اس قدر قلاقل و زلازل کے لائق نہ تھا۔ یہ علمِ اصول فقہ کا ایک جزئی مسئلہ ہے اور نہایت واضح ہے۔ یعنی تقلید اِس کو کہتے ہیں کہ آدمی دوسرے شخص کی بات کو حلت و حرمت کے سلسلہ میں بلا دلیل و نص شارع قبول کر لے۔ سو یہ بات ظاہر ہے کہ سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور کسی شے کی حلت و حرمت آپ کے بتائے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی تو اتباع آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا چاہیے۔ کسی اور شخص کا نہیں ورنہ اسے پیغمبر ماننا پڑے گا۔
اگر کسی مجتہد نے کسی دلیل کے نہ ملنے اور نہ معلوم ہونے کی صورت میں کسی شئی پر اپنے اجتہاد، رائے یا قیاس سے حکم لگایا اور بعد میں کسی دوسرے شخص پر قرآن و حدیث سے دلیل واضح ہو گئی تو وہ مجتہد معذور ہے لیکن اسے جہد و سعی کا ایک اجر ضرور ملے گا۔ مگر وہ شخص جسے آیتِ قرآن یا سنتِ صحیحہ پہنچ گئی ہرگز معذور نہیں ہو گا۔ اور اگر دیدہ و دانستہ نص کی مخالفت کرے گا، تو خدا اور رسول کا مخالف ٹھہرے گا۔
اس بات کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے، کچھ مشکل بات نہیں ہے۔ ہم نے فقہِ مذاہبِ اربعہ کی ساری کتابیں دیکھی ہیں۔ کسی امام مجتہد سے یہ بات منقول نہیں پائی کہ ہمارے اجتہاد کے آگے تم، قرآن و حدیث کو چھوڑ دینا، بلکہ چاروں اماموں نے اپنی اور غیر کی تقلید سے منع کیا ہے۔ ان کے اقوال خود ان کے مقلدوں کی کتابوں میں منقول ہیں۔ اِس صورت میں ظاہر بات ہے کہ ان کا مقلد صحیح صادق تو وہی مسلمان ہے، جو اِس قولِ حق میں ان کی پیروی کرے نہ وہ کہ جو ان کے اس قول کی مخالفت کرے۔ کیونکہ وہ تو ان کا مخالف ہوا نہ کہ مقلد، علاوہ ازیں ائمہ اربعہ رحمہم اللہ سے فقہ کے جتنے مسائل منقول ہیں،
|