Maktaba Wahhabi

152 - 384
شیعہ کی حکومت کے زمانہ میں دنیا کے لالچ سے بہت سے شرفاء شیعہ ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کو خالص سنی و محمدی بنایا۔ اس ملک میں اہل حدیث بہت کم ہوئے ہیں۔ چند اہل علم و اہل باطن جو عامل بالسنۃ تھے، ’’مقاماتِ مرزا مظہر جانجاناں رحمہ اللہ‘‘ میں ان کا جستہ جستہ ذکر آیا ہے، وہ مصلحتِ وقت کے پیش نظر متستر بالفقہ رہے۔ شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ بطورِ محدث مشہور تھے۔ لیکن محررِ مذہب حنفیہ تھے۔ اس کے باوجود ان کا علم و فضل اور تقویٰ میرے نزدیک مسلم ہے۔ اُنہوں نے فقہاء کے طریقہ پر تاویلِ احادیث کو اختیار کیا۔ کسی جگہ تاویل صحیح ہے اور کسی جگہ صحیح نہیں۔ اس جگہ وہی ’’میزان شعرانی رحمہ اللہ‘‘ والی بات درست ہے کہ فقہاء کا مسائل میں اختلاف تشدید و تخفیف پر محمول ہے اور سوءِ ظن کی بہ نسبت سب کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا سلامتی کا راستہ ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں رائے و تقلید کے اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اور اتباعِ سنت کی طرف خوب رغبت دلائی ہے اور اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں حنفی و شافعی مسائل فقہیہ کے درمیان تطبیق اور بعض جگہ ترجیح دی ہے۔ ان کے بعد شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں لوگوں کے درمیان تقلید کی بحث شروع ہوئی۔ بحث ابھی ناتمام ہی تھی کہ ان کا عہد سعادت مہد ختم ہو گیا اور اس عہد کے بعد وہ علماء بھی باقی نہ رہے جو فقہ میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ متوسط درجہ کے کچھ لوگ تھے۔ ان میں سے طرفین کی طرف سے بجائے مناظرہ کے مکابرہ و مجادلہ کی نوبت آ پہنچی۔ ایک فرقہ نے وجوبِ تقلید کے اثبات اور دوسرے نے ردِ تقلید میں بہت بے عنوانی سے کمر باندھی اور تحریر و تقریر میں سب و شتم بلکہ لعن و طعن کا بھی استعمال ہوا۔ العیاذ باللہ!
Flag Counter