کیا ہوتا ہے۔ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور اہل دنیا فریب اور جھوٹ پر فریفتہ ہیں۔ بلکہ جس کو ذرا پابندِ علم و دین دیکھتے ہیں، اِسی کی جان و مال اور آبرو کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اس پر بھی ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں
دنیا داری و عاقبت می طلبی
ایں ناز بخانہ پدر باید کرد
صدرِ اول سے آج تک ہر صدی کے آخر یا اول میں مجددِ دین ہوتے رہے ہیں۔ ملوکِ اسلام نے مساجد، مدارس، رباطات، قناطیر اور طرق وغیرہ مراسمِ اسلام کی تجدید کی۔ علماء نے ایمان کی تجدید کی، بدعاتِ مذاہب کو دور کیا اور شرک و کفر کے مٹانے میں سعی وافر بجا لائے۔ مشائخِ صوفیہ نے بدعاتِ احسان کو مٹایا، سلوک صافی کو رواج دیا۔ بعض نے یہ سب کام کئے۔ بارہویں صدی کے اول میں سید احمد بریلوی رحمہ اللہ اور ان کے خلفاء مجددِ دین ہوئے۔ اب چودھویں صدی شروع ہوئی۔ سالِ پنجم کا آغاز ہے۔ اب تک کسی ملک میں کسی مجدد کا وجود معلوم نہیں ہوا۔ یہ ہمارے اعمال کی شامت ہے۔ انا للہ!
ابتلاءِ دنیا:
جو لذت مجھے بلا میں ملتی ہے، جو لطف شکستگیِ خاطر میں آتا ہے، جو کیف بے چارگی و عاجزی میں ملتا ہے اور جتنی یادِ خدا حالتِ مرض و فقر و غم و حزن میں حاصل ہوتی ہے، وہ عیش فانی کے اسباب میں میسر نہیں ہوتی
چہ خوش بردی دل تنگ مادرے و اکرد
خدا دراز کندِ عمر زخمِ کاریِ ما
|