شیخ جیلی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مرضاتِ الٰہی میں بذل مجہود کے بعد بندہ کو تلذذ بالبلاء کا مقام عطا ہوتا ہے۔ اور یہ ابتلاء تین طرح کی ہوتی ہے۔
ایک عقوبت بمقابلہ ارتکابِ جریمہ یا اقترافِ معصیت۔
دوہرے تکفیر یا تمحیص۔
تیسرے ارتفاعِ درجات بہ تبلیغ منازلِ عالیات۔
((ولكل من هذه الاحوال علامات فعلامة الابتلآء عليٰ وجه العقوبة والمقابلة عدم الصبر عند وجود البلآء و كثرة الجزع و الشكوٰي الي الخلق و علامة الابتلاء تكفيرًا و تمعيصًا للخطايا وجود الصبر الجميل من غير شكويٰ ولا اظهار جزع ولا خضر الي الاصدقآء والجيران وعدم ثقل الطاعات عليٰ يديه و علامة الابتلاع لارتفاع الدرجات وجود الرضآء الموافقة وطمانينة النفس وخفة الاعمال الصالحة علي القب ولبدن))
’’ان تمام احوال میں سے ہر ایک کی الگ الگ علامات ہیں۔ ابتلاء عقوبت بمقابلہ ارتکاب جریمہ کی علامت وجودِ بلاء کے وقت عدم صبر، کثرتِ جزع اور مخلوق کی جانب شکوہ ہے۔ تکفیر و تمحیصِ خطایا کے سلسلہ میں ابتلاء کی علامت یہ ہے کہ صبرِ جمیل کا مظاہرہ کیا جائے۔ شکوۃ و شکایت نہ کی جائے اور نہ دوست احباب اور پڑوسیوں کی طرف دل کی گھبراہٹ اور غم کا اظہار کیا جائے اور اسے طاعات میں بوجھ بھی محسوس نہ ہو، ارتفاعِ درجات کے سلسلہ میں ابتلاء کی علامت یہ ہے کہ رضاء، موافقت اور نفس کی طمانیت حاصل ہو اور دل اور جسم پر اعمالِ صالحہ گراں محسوس نہ ہوں۔‘‘
میں نے دوسرے لوگوں میں ان تینوں علامات کا مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن دو علاماتِ اولیٰ کو زیادہ تر پاتا ہوں۔ اور اکثر مخلوق میں علامتِ اولیٰ ہی غالب
|