تیس سال کو پہنچی تو ہمت اور زیادہ مشقت سے جی چرانے لگا تو ناگہاں رحمتِ الٰہی نے کارسازی فرمائی۔ کثیر نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ اور افکارِ پریشاں سے نجات بخش کر ساحلِ نجات پر پہنچا دیا۔ ہر چند کہ ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان کا اتمام اس طرح ہو گا کہ قبضِ روح حالتِ ایمان پر ہو۔ اللہ تعالیٰ سے اس نعمت کا حصول بھی کچھ مشکل نہیں ہے
امید ہست دمِ مرگ ازلبِ توفیق
برآید اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه
علمِ دین کی محبت کے سوا اور کسی چیز کی محبت کا میرے دل پر تسلط یا استیلاء نہیں ہے۔ اگرچہ عمل میں قاصر فاتر ہوں تاہم اپنے تجربہ میں اس لذت کو دنیا کی تمام لذتوں اور شہوتوں سے زیادہ لذیذ پاتا ہوں۔ جس دن مجھے کسی کتاب کے مطالعہ یا تحریر کا اتفاق نہ ہو، میں بیمار سا ہو جاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ عَدد اور عُدد کے اعتبار سے اہل عصر کی نسبت میری تالیفات زیادہ ہیں۔ ایک مدت تک عربی زبان میں کتب تالیف کرتا رہا۔ پھر جب دیکھا کہ اکثر لوگ عربی سے جاہل ہیں تو میں نے فارسی میں لکھنا شروع کیا، اور اب جب کہ فارسی دان بھی نظر نہیں آتا، جسے دیکھو وہ اُردو پر فریفتہ ہے تو ناچار اُردو میں لکھنا شروع کر دیا۔ چنانچہ میرے بہت سے رسائل دین اسی زبانِ ہندوستان میں ہیں۔ لیکن افسوس کہ علم اور کتب کی کثرت کے باوجود اہل شوق اور طالبِ آخرت نظر نہیں آتے، اب تو سب کی ہمت طلب و جمع مال میں منحصر ہو گئی ہے۔ تحصیلِ معاش میں نہ حفظ آبرو کا کسی کو خیال ہے اور نہ حلال و حرام میں امتیاز۔ دین کا صرف نام رہ گیا ہے اور اسلام ماضی کی ایک حکایت معلوم ہوتا ہے۔ اشراطِ ساعت نمایاں ہیں اور مظالم بے پایاں۔ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اور اسلام کا انجام
|