جائے، اور اللہ کا یہ حکم ہونے والا ہی تھا۔‘‘
اپنی اسی خصوصیت اور امتیاز کی وجہ سے حضرت زینب ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتی تھیں اور کہتی تھیں : تم لوگوں کی شادی تمہارے گھر والوں نے کرائی اور میری شادی اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کرائی۔ [1]
۲۔ ان کی شادی آیت حجاب کے نزول کا سبب ہے۔
امام بخاری نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: جب زینب کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی تو وہ آپ کے ساتھ گھر میں تھیں ، آپ نے کھانا پکوایا اور لوگوں کو مدعو کیا، لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، اس پر اللہ نے یہ آیت ناز فرمائی:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰیہُ وَ لٰکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْاوَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَ اللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِہِنَّ وَ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ لَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًاo﴾ (الاحزاب: ۵۳)
’’اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں (بن بلائے) مت جایا کرو، مگر یہ کہ تم کو کھانے کی اجازت دی جائے ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو، لیکن جب تم کو بلایا جائے تو چلے جاؤ، پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں میں جی لگا کر بیٹھے نہ رہو، اس سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے، لیکن وہ تم سے شرماتے ہیں ، اور اللہ حق بات کہنے سے شرماتا نہیں ہے اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے پاک رہنے کا ذریعہ ہے، اور تمہیں یہ جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ، اور نہ یہ جائز ہے کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی شادی کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی (گناہ کی) بات ہے۔‘‘
اس آیت کے نزول کے بعد پردہ فرض کیا گیا اور لوگ گھر سے واپس ہو گئے۔ [2]
۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں صدقہ کرنے اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے پر ان کی تعریف
|