کر کے پالنا پوسنا اور اس کی سب سے بڑی دلیل ان کا قبر حسین میں اختلاف کرنا ہے۔ بیمار دل و دماغ کے یہ لوگ اس بات کا شور تو بہت زیادہ ڈالتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ سر حسین رضی اللہ عنہ کا یا لاشۂ حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے اور اس کی بابت غم و الم کی دل فگار داستانیں سنا سنا کر لوگوں کے احساسات و جذبات میں زبردست انگیخت پیدا کرتے ہیں ، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان خود تراشیدہ افسانوں کی آڑ میں امت کے دلوں کو حزن و ملال کی آگ میں جلا کر خاکستر کر دیا جائے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ غم و اندوہ کی ان داستانوں سے مقصود جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے محبت و عقیدت کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ ان آبرو باختہ اور مکارم اخلاق سے گرے فرضی واقعات کو سنا کر جناب حسین رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ اور ایمان و اخلاق سے تعبیر بے مثل حیاتِ مبارکہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا اور آں جناب رضی اللہ عنہ کی حرمت و کرامت کو مرنے کے بعد اسی طرح پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرنا ہوتی ہے جس طرح آپ کو آپ کی زندگی میں جور و جفا کا نشانہ بنا کر قتل کر کے بے آبرو کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر ان لوگوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کو امت مسلمہ اور بالخصوص عربوں کو اور اس سے بھی بڑھ کر صحابہ کو سب و شتم کرنے کا قوی ذریعہ بنا لیا۔ غرض ان لوگوں کے سامنے بنیادی مقصد اجڈ، گنوار، جاہل اور احمق لوگوں کے دل و دماغ میں اپنے باطل عقائد کو جاگزیں کرنا اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کر کے دو مقاصد حاصل کرنا تھا:
۱۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تعظیم و تکریم کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ مال بٹورنا۔
۲۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ کی مجاوری اور خدمت کی آڑ میں لوگوں کی جذباتی ہمدردیاں حاصل کرنا۔ وگرنہ ان لوگوں کو اس بات کی سرے سے کوئی پروا نہیں کہ حسین رضی اللہ عنہما عراق میں دفن ہوں یا مصر میں یا مغرب میں ۔
اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے میں عجلت سے کام نہ لے کہ قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ ظاہر اور جانے پہچانے ہیں ، تحقیق و تدقیق سے کام لینے والا ہر آدمی دیکھے گا کہ یہ بات واقعات کے ظاہر پر مبنی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا تعلق بلا واسطہ طور پر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے واقعہ سے ہے۔ جن ندیدہ ہاتھوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش تیار کی تھی، انہی ہاتھوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو رفتہ رفتہ میدان کربلا میں لا کھڑا کیا تھا۔ پھر انتہائی تیرہ و تاریک حالات میں جناب حسین رضی اللہ عنہ کو مقتل پر پیش کر دیا گیا اور یہ سب کچھ مدد کے نام پر کیا گیا۔
تو پھر بالآخر اس ساری سازش کے تانے بانے کس نے بنے؟
وہ ندیدہ ہاتھ کس کا تھا؟
|