Maktaba Wahhabi

21 - 441
حکمران کے طور پر پیش کرنے سے عبارت ہے اور یہ وہ چیز ہے جسے فقہائے کرام امام کے خلاف خروج سے تعبیرکرتے ہیں اس جگہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ عراق روانگی سے قبل کئی مہینوں تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، وہ اس طرح کہ آپ تین شعبان ۶۰ ہجری کو مکہ مکرمہ تشریف لائے اور اسی سال آٹھ ذوالحجہ کو عراق کے لیے روانہ ہوئے۔[1] اس دوران میں آپ اہل عراق سے خط و کتابت کرتے رہے اور مختلف وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے، اسی دوران میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ظلم کا مقابلہ کرنا اور منکر کا خاتمہ کرنا ضروری ہو چکا ہے اور یہ ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ عراق میں ان کے شیعہ ان سے رابطے میں تھے اور ان کے درمیان مراسلت کا سلسلہ جاری تھا۔[2] حسین رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر سے یزید نے حکومت کے بارے میں حدود اللہ کا التزام نہیں کیا اور یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے منہج کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے فتویٰ کی بنیاد شرعی منطق کے تسلسل پر رکھی اور وہ یہ کہ یزید کی عدالت و صلاحیت میں شک ان پر عدم بیعت کو واجب قرار دیتا ہے۔ چونکہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کر رکھی تھی اور ان کا شمار علمائے امت اور ساداتِ امت میں ہوتا ہے لہٰذا وہ حدود اللہ کے قیام کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔ اس بنا پر ان کا موقف امام کے خلاف خروج نہیں بلکہ برائی کا خاتمہ، باطل کا مقابلہ اور حکم کو صحیح اسلامی راہ پر نئے سرے سے چلانا کہلائے گا۔[3] اس امر کی دلیل کہ حسین رضی اللہ عنہ اس بات کے حریص تھے کہیزید کی حکومت کے مقابلہ میں ان کا فتویٰ اور سیاسی سرگرمیاں اسلامی تعلیمات و قواعد سے ہم آہنگ تھیں ان کا یزید کے ساتھ مقابلہ کرنے کے عزم کے وقت مکہ مکرمہ میں قیام سے انکار تھا تاکہ اس کی حرمت پامال نہ ہو اور وہ خوں ریزی اور قتل و قتال کے لیے میدان جنگ نہ بنے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: ’’اگر مجھے فلاں فلاں جگہ قتل کر دیا جائے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ مجھے مکہ میں قتل کیا جائے اور میری وجہ سے اس کی حرمت کو پامال کیا جائے۔‘‘[4]
Flag Counter