Maktaba Wahhabi

186 - 441
محمد کاظم قزوینی لکھتا ہے: ’’ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوا۔ اس نے قبائل و عشائر کے سرداروں کو شامی لشکروں کی دھمکی بھجوا دی۔ لشکروں کی آمد کا سن کر ایک ایک کر کے سب مسلم کا ساتھ چھوڑ گئے۔ حتیٰ کہ مسلم اکیلے رہ گئے۔‘‘[1] میں کہتا ہوں یہی وہ بات تھی جس کا مسلم بن عقیل کو ڈر تھا۔ اسی لیے انہوں نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے کوفہ بھیجتے وقت ہی درخواست کر دی تھی کہ مجھے اس مہم سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ۔ اس لیے اگر اس مہم سے مجھے معاف ہی رکھیے تو بہتر ہو گا۔ کیونکہ کوفیوں کا سابقہ رویہ جو انہوں نے ان کے چچا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور چچا زاد سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنائے رکھا تھا، ہر وقت ان کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ پھر وہی ہوا جس کا مسلم کو ڈر تھا اور مسلم بن عقیل ان سب لوگوں کی نگاہوں کے سامنے قتل کر دئیے گئے جنہوں نے مسلم کو کوفہ بلایا اور حسین رضی اللہ عنہما کے نام پر ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ لیکن کسی نے آگے بڑھ کر مسلم پر ہونے والے اس ظلم کو روکنے کے لیے اپنے بدن پر خراش تک نہ آنے دی۔ عبدالحسین شرف الدین ، مسلم کے ساتھ کی جانے والی رسوائے زمانہ غداری کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’لیکن انہوں نے (یعنی کوفیوں نے) مسلم کے ساتھ کی ہوئی بیعت کو بعد میں توڑ دیا اور ان کے عقدو ذمہ کو ختم کر دیا اور ان کے ساتھ کیے عہد پر قائم نہ رہے اور ان کے ساتھ کیے عقد کو پورا نہ کیا۔ (واہ موصوف کس طرح تعبیر بدل بدل کر خود اپنے اسلاف کی گھناؤ نی صورت کے ایک ایک نقش کو بیان کر رہا ہے)۔ میرے ماں باپ مسلم پر قربان! کہ انہیں کس قدر خوفناک صورت سے سامنا کرنا پڑا، ان کا کس قدر بے وفاؤ ں ، حقوق کو ضائع کرنے والوں اور ذلت و رسوائی کے سرغنوں سے سابقہ پڑا تھا۔
Flag Counter