Maktaba Wahhabi

150 - 441
حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے جس قدر محبت تھی اس کو کہاں تک بیان کیجیے اور کیا بتائیے اور کیا چھوڑیے کہ ہر نقشہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است یہ تو تھیں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی بابت اہل سنت و الجماعت کی وہ نصوص جن میں کتاب و سنت اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار و اخبار کو معیار بنایا گیا ہے اور ان سے تمسک کیا گیا ہے۔ لیکن اعدائے صحابہ نے آل بیت اور بالخصوص سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں دجل و تلبیس اور وضع و تدلیس سے کام لیتے ہوئے ایسی ایسی روایات گھڑی گئی ہیں جن میں بظاہر تو آل بیت سے محبت و تعظیم کا اظہار کیا گیا ہے لیکن درپردہ ان نصوص سے کتاب و سنت کے بیان کردہ عقائد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی مخالفت کا کام لیا گیا ہے۔ اعدائے صحابہ نے حضرات اہل بیت رضی اللہ عنہم کی بابت قرآن و سنت پر مبنی عقیدہ کے ’’چشمۂ صافی‘‘ کو گدلا اور گندا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ چنانچہ قرآن تو یہ شہادت دیتا ہے کہ آل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باہم شیر و شکر اور ایک دوسرے کے انصار و مددگار تھے مگر اعدائے صحابہ کی خود تراشیدہ داستانیں کچھ اور ہی قصہ سناتی ہیں ۔ چنانچہ یہ وضعی روایات یہ باور کرواتی ہیں کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے تھے اور کبھی ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروفِ عمل دکھایا جاتا ہے۔ ان کے منہ میں خاک! زمین و آسمان ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں ، گردشِ لیل و نہار رک سکتی ہے، حرکت آفتاب تھم سکتی ہے، نور مہتاب مٹ سکتا ہے، آگ اور پانی اپنی تاثیر کھو سکتے ہیں مگر! نہیں ہو سکتا تو یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل بیت اطہار اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ذرا سا بھی میل آ جائے!حاشا و کلا! اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم نے دروغ بافیوں اور جعل سازیوں کا یہ سلسلہ صرف اس نا مسعود، غیر محمود، منحوس اور خبیث مقصد کو حاصل کرنے کے لیے (اللہ انہیں کبھی کامیاب نہ کرے) جاری کیا تاکہ امت مسلمہ میں فتنوں کو ہوا دی جا سکے اور انہیں محبت و مودت اور رحمت و تعاون کے ان رشتوں سے بے گانہ و ناآشنا بنایا جا سکے جو اسلاف امت، حضرات صحابہ کرام اور آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم میں قائم و استوار تھے۔ اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ گھناؤ نا رویہ ہر مسلمان پر اس بات کو لازم کرتا ہے کہ وہ تاریخ کا مطالعہ ہوشیار اور بیدار ہو کر کرے اور جہاں کہیں بھی کوئی ایسی بات ملے جو اسلاف اکابر کے بلند کردار سے ازحد گری ہوئی ہو اس کا بلا تردّد و تحقیق انکار کر دے اور جو بات بھی ان کی اخلاقیات، اخوت و ایثار، چشم پوشی، عفو و کرم اور
Flag Counter