حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں اور بچیوں کی طرف سے حسب استطاعت قربانی کرتے تھے چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے گھر والوں میں سے جس نے بھی عقیقہ کرنے کا سوال کیا تو انہوں نے ان کے لیے قربانی کا جانور دے دیا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بچہ اور بچی دونوں میں سے ہر ایک کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقہ میں قربان کیا کرتے تھے۔[1]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر میں وسعت ہے کہ چاہے بکری دیجیے یا مینڈھا اور ایک دیجیے یا دو، یہ سب ثابت اور معمول بہ ہے اگرچہ زیادہ مشہور یہی ہے کہ بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ میں قربان کی جائے۔
عقیقہ کرنے کا ایک مقصد معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرنا، افرادِ خاندان میں تعلق کو استوار کرنا، دنیا میں آنے والے اس نئے مہمان کے بارے میں دنیا والوں کو آگاہ کرنا، اس کے پیدا ہونے سے خوش ہونا، اس کے نیک مستقبل کی بابت نیک فال لینا اور خاص طور پر اس کی ماں کو خوش کرنا ہے۔ جو پورے خاندان کے خوش ہونے کا قوی سبب ہوتا ہے جیسا کہ سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ولادت سے جہاں ان کے والدین کریمین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بے حد خوش ہوئے تھے، وہیں ان کے نانا حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بھی بے حد مسرور ہوئے تھے۔ اسی لیے خاندان، ماں اور بچے کی رعایت اسی میں ہے کہ سنت نبویہ نے جس چیز کی تعلیم دی ہے اس کا اہتمام کیا جائے اور اسلامی تعلیم کردہ خاندانی امور کا التزام کیا جائے۔
اسلام افراد خانہ اور افراد معاشرہ دونوں کے دلوں میں محبت و مودت کا بیج بونا چاہتا ہے تاکہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دست و بازو، معاون و مددگار اور مونس و غم خوار بنے۔ عقیقہ جیسے احکام کی تعلیم انہی مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔
|