Maktaba Wahhabi

599 - 692
9:وکیل کے ذریعے سے یا تحریری طلاق: اگر طلاق دینے کے لیے کسی کو وکیل مقرر کرے اور وہ طلاق دے یا طلاق نامہ تحریر کر کے عورت کو روانہ کر دے تو طلاق واقع ہو جائے گی،اس لیے کہ حقوق میں وکالت جائز ہے اور زبان سے بولنا اور تحریر کرنا دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ 10:طلاق تحریم: عورت کو حرام قرار دینے میں اگر طلاق کی نیت ہے تو طلاق نافذ ہو گی اور اگر’’ظہار‘‘کا ارادہ ہے تو ’’ظہار‘‘ ہو گا اور ’’کفارئہ ظہار‘‘ کی ادائیگی کرے گا٭ لیکن اگر’’طلاق‘‘ و’’ظہار‘‘ کا ارادہ نہیں ہے بلکہ قسم کا ارادہ ہے،مثلاً:یوں کہے:اگر تو نے فلاں کام کیا تو تو حرام ہے اور اس نے وہ کام کر لیا تو اس میں قسم کا کفارہ ہے،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب مرد اپنی بیوی کو حرام قرار دے تو یہ قسم ہے،وہ ’’کفارئہ یمین‘‘ ادا کرے،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔[1] 11:حرام طلاق: مرد اپنی بیوی کو ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں دے دے یا ایک مجلس میں تین جملے بول دے کہ تجھے طلاق ہے،تجھے طلاق ہے،تجھے طلاق ہے۔’’فقہائے امت‘‘کا اجماع ہے کہ اس طرح طلاق دینا حرام ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھے تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ نے فرمایا: ((أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْھُرِکُمْ؟))’’کیا اللہ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے جبکہ میں تمھارے اندر موجود ہوں۔‘‘[2] ایک صحابی رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کی کہ میں اسے قتل نہ کر دوں۔ ائمۂ اربعہ اور جمہور علماء اس صورت میں تین طلاقوں کے نفاذ کے قائل ہیں اور یہ کہ مطلقہ اس مرد کے لیے حلال نہیں ہو گی،الّا یہ کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح کرے جبکہ دوسرے علماء اسے ایک ’’بائن‘‘(جس کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے)یا رجعی طلاق شمار کرتے ہیں اور دلائل کے اختلاف اور نصوص سے ہر ایک کے اپنے اپنے انداز فہم کی وجہ سے یہ اختلاف وقوع پذیر ہوا ہے۔ اس مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے طلاق دینے والے کے حال کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔اگر وہ لفظ ’’تجھے تین طلاق‘‘سے عورت کو صرف ڈرانا چاہتا ہے یا اس سے وہ قسم کا مفہوم ذہن میں رکھتا ہے،مثلاً:کہے ’’اگر تو نے یہ کام کیا تو تین طلاقیں ‘‘ اور عورت نے یہ کام کر بھی لیا یا ’’شدت غضب‘‘ میں یہ لفظ اس کے منہ سے نکل گئے جبکہ وہ کلی طور پر ٭ ظہار اور اس کے کفارے کا مفصل بیان آگے آ رہا ہے۔
Flag Counter