Maktaba Wahhabi

534 - 692
اسی پر اس کا تاوان ہے۔‘‘[1] 7: قرض کی مقدار میں اگر’ ’راہن‘‘ اور’ ’مرتہن‘‘ کے مابین اختلاف ہو جائے تو حلف کے ساتھ ’’راہن‘‘ کی بات معتبر ہو گی،ا لّا یہ کہ’ ’مرتہن‘‘ اس کے خلاف ثبوت پیش کر دے اور اگر ’’رہن‘‘ میں اختلاف ہو جائے،مثلاً ’’راہن‘‘ کہتا ہے کہ میں نے تیرے پاس جانور اور اس کا بچہ گروی رکھا تھا اور’ ’مرتہن‘‘ کہتا ہے صرف جانور تھا تو حلف کے ساتھ ’’مرتہن‘‘ کی بات معتبر ہو گی۔ا لّا یہ کہ’’راہن‘‘ اس کے خلاف ثبوت پیش کر دے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّعِي وَالْیَمِینُ عَلَی الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ))’’ثبوت مدعی پیش کرے اور قسم اس مدعیٰ علیہ پر ہے(جو انکار کرے۔)‘‘[2] 8: اگر ’’مرتہن‘‘ دعویٰ کرے کہ میں نے ’’مرہون‘‘چیز واپس کر دی ہے اور’ ’راہن‘‘ انکار کرے تو راہن کی حلفیہ بات تسلیم کی جائے گی،ا لّا یہ کہ’ ’مرتہن‘‘ اپنے دعوے میں ثبوت پیش کر دے۔ 9: ’’مرتہن‘‘ اخراجات(چارہ وغیرہ)کے بدلے میں گروی رکھی ہوئی سواری پر سوار ہو سکتا ہے اور اس کا دودھ پی سکتا ہے۔اس بارے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اَلظَّھْرُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہِ إِذَا کَانَ مَرْھُونًا،وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہِ إِذَا کَانَ مَرْھُونًا،وَعَلَی الَّذِي یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ النَّفَقَۃُ)) ’’مرہون جانور پر خرچ کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور جو سوار ہو گا اور دودھ پیے گا،وہ(جانور کی ضروریات کے لیے)خرچ ادا کرے گا۔‘‘[3] 10: گروی چیز کی آمدنی،اجرت،محصول،نسل وغیرہ سب ’’راہن‘‘کی ملکیت ہے اوراسی کے ذمے ان تمام چیزوں کے اخراجات ہیں جن سے گروی چیز کی بقا ہے،مثلاً:باغ کو پانی پلانا وغیرہ،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((اَلرَّھْنُ لِمَنْ رَّھَنَہُ،لَہُ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ)) ’’مرہون چیز ’’راہن‘‘کی ملکیت ہے،وہی اس کے نفع کا مالک ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔‘‘[4]
Flag Counter